ذہنی دباؤ میں ناک کیوں ٹھنڈی ہوجاتی ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ کی ناک ٹھنڈی ہو جاتی ہے؟ برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس کے ماہرین نفسیات کی ایک نئی تحقیق میں یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ دباؤ کے دوران انسانی چہرے خصوصاً ناک کا درجہ حرارت نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے جس تبدیلی کو تھرمل کیمروں کے ذریعے ناپا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق یہ تحقیق انسانی دباؤ کو جانچنے کے لیے جدید، غیر مداخلتی اور جسمانی بنیاد پر مبنی طریقہ فراہم کرتی ہے جو مستقبل میں ذہنی صحت کی جانچ اور بہتری میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

تحقیق کا تجرباتی مرحلہ
بی بی سی کی ایک رپورٹر نے اس تحقیق کے تحت خود کو ایک آزمائشی مرحلے سے گزارا جسے ’سوشل اسٹریس ٹیسٹ‘ کہا جاتا ہے پہلے مرحلے میں رپورٹر کو ایک پرسکون ماحول میں بیٹھا کر سفید شور (ایسی آواز جو اکثر دماغ کو پُرسکون کرنے، نیند لانے یا توجہ مرکوز کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) سننے کے لیے کہا گیا تاکہ ذہن کو پرسکون کیا جا سکے۔

لیکن پھر اچانک ایک 3 افراد پر مشتمل اجنبی پینل کمرے میں داخل ہوا اور رپورٹر کو بغیر کسی تیاری کے اپنی ڈریم جاب پر 5 منٹ کی تقریر کرنے کا کہا گیا۔
اس صورتحال میں رپورٹر کے چہرے کے درجہ حرارت میں جو تبدیلی آئی جس کو تھرمل کیمروں کے ذریعے فلمایا گیا۔ محققین نے دیکھا کہ ناک کا درجہ حرارت تیزی سے کم ہو کر نیلا دکھائی دینے لگا جو واضح طور پر دباؤ کی نشانی تھی۔

ناک ٹھنڈی کیوں ہوتی ہے؟
تحقیق کے مطابق دباؤ کی حالت میں انسانی اعصابی نظام خون کے بہاؤ کو ناک سے ہٹا کر آنکھوں اور کانوں کی طرف منتقل کرتا ہے تاکہ ممکنہ خطرے کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت بڑھائی جا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناک کا درجہ حرارت 2 سے 6 ڈگری سیلسیس تک گر جاتا ہے۔
29 رضاکاروں پر کیے گئے تجربات میں سب میں یہ تبدیلی دیکھی گئی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ زیادہ تر افراد کا ناک کا درجہ حرارت چند منٹوں میں دوبارہ نارمل ہو گیا جس کا مطلب ہے کہ جسم نے خود کو تیزی سے سنبھالا۔

کیا یہ ذہنی صحت کی تشخیص میں مددگار ہو سکتا ہے؟
تحقیقی ٹیم کی سربراہ پروفیسر جلیان فاریسٹر کہتی ہیں کہ ناک کے درجہ حرارت کی بحالی کی رفتار یہ ظاہر کر سکتی ہے کہ کوئی فرد دباؤ کو کتنی مؤثر طریقے سے سنبھالتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بحالی بہت سست ہو تو یہ ڈپریشن یا اینگزائٹی (اضطراب) کے خطرے کی علامت ہو سکتی ہے۔

اس طریقہ کار کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ شیر خوار بچے یا بولنے سے قاصر افراد میں بھی تناؤ کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا مرحلہ، دماغی امتحان
تحقیقی تجربے کے دوسرے مرحلے میں رپورٹر کو سال 2023 سے الٹی گنتی 17 کے وقفے سے گننے کو کہا گیا۔ ہر غلطی پر اسے دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ رپورٹر نے تسلیم کیا کہ ذہنی حساب میں وہ کمزور ہے اور اس مرحلے نے اسے مزید دباؤ کا شکار کر دیا۔

تحقیق میں جانور بھی شامل
تحقیق کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ طریقہ صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں خصوصاً بڑے بندر جیسے چمپنزی اور گوریلا پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے ۔
یونیورسٹی آف سسیکس کے محققین نے دریافت کیا کہ جب چمپنزیوں کو بچوں کے کھیلنے کی ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں تو ان کی ناک کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جو کہ سکون کی علامت ہے۔

بندروں کی ذہنی صحت پر تحقیق کرنے والی ماریان پیسلی کا کہنا ہے کہ یہ جانور اپنے احساسات بیان نہیں کر سکتے اور بعض اوقات وہ اپنے جذبات کو چھپانے میں ماہر ہوتے ہیں۔

محققین امید رکھتے ہیں کہ اس تحقیق کے ذریعے نہ صرف انسانوں میں دباؤ کا اندازہ لگایا جا سکے گا بلکہ ان جانوروں کی بحالی میں بھی مدد ملے گی جو صدمے کا شکار ہو چکے ہیں۔

یوں ایک سادہ سا جسمانی اشارہ جیسے ناک کا ٹھنڈا ہونا انسانی ذہنی کیفیت کی عکاسی کر سکتا ہے۔

تھرمل امیجنگ پر مبنی یہ تحقیق مستقبل میں ذہنی صحت، اضطراب اور دباؤ کی تشخیص میں انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں