پاک افغان جھڑپوں کے بعد پاکستانی افواج افغان سرحد پر ہائی الرٹ، تجارت معطل

پاک افغان بارڈر پر جھڑپوں کے بعد پاکستان کی افواج افغانستان کے ساتھ سرحد پر ہائی الرٹ پر ہیں اور دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں جب کہ اس صورت حال نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے بعد پاکستانی افواج پیر کے روز بھی سرحد پر ہائی الرٹ پر ہیں، ذرائع کے مطابق ہفتے کی رات شروع ہونے والی جھڑپیں 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سب سے خونریز تصادم قرار دی جا رہی ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان لڑائی جو کبھی اتحادی تھے اس وقت شروع ہوئی جب اسلام آباد نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کریں جو پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں اور افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستانی شدت پسند ان کی سرزمین پر موجود نہیں ہیں۔

پاکستانی فوج کے مطابق حالیہ جھڑپوں میں 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے جب کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ان کے 9 جنگجو مارے گئے۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے بھاری جانی نقصان کے دعوے کیے تاہم ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے 200 سے زائد افغان طالبان اور ان کے اتحادی جنگجوؤں کو ہلاک کیا جب کہ افغانستان نے کہا کہ اس نے 58 پاکستانی فوجیوں کو مارا۔

کابل کی جانب سے اتوار کو کہا گیا تھا کہ قطر اور سعودی عرب کی درخواست پر اس نے حملے روک دیے ہیں۔

سرحدی گزرگاہیں بند، تجارت رک گئی
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ 2,600 کلو میٹر طویل سرحد پر تمام گزرگاہیں بند کر دیں، جس کے باعث دوطرفہ تجارت مکمل طور پر معطل ہو گئی۔

ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ”افغان طالبان فورسز کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے بعد ہفتے سے سرحد پر تمام داخلی راستے بند ہیں۔“

ایک دوسرے اہلکار نے کہا کہ اتوار کی شب ہلکی فائرنگ کے چند واقعات ہوئے مگر مجموعی طور پر حالات قابو میں ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے رائٹرز کو بتایا کہ سرحد پر موجودہ صورتِ حال معمول کے مطابق ہے، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔

2021 کے بعد پہلی بار بھارت کا دورہ کرنے والے افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کسی سے لڑائی نہیں چاہتا اور اس کے تمام دیگر ہمسایہ ممالک کابل سے خوش ہیں۔ جنگ مسائل کا حل نہیں، مکالمے کی ضرورت ہے، یہی ہماری پالیسی رہی ہے۔

سینئر سرکاری اہلکار نے بتایا کہ سرحدی گزر گاہیں بند ہونے کے باعث تجارت اور انتظامی امور سے متعلق تمام پاکستانی سرکاری دفاتر بند کر دیے گئے ہیں۔

ٹرک اور کنٹینر سرحد پر پھنس گئے
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کے مطابق نئی کشیدہ صورت حال کے بعد مال بردار گاڑیاں، جن میں کنٹینرز اور ٹرک شامل ہیں، سرحد کے دونوں طرف پھنسے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان میں تازہ پھل اور سبزیاں، درآمدات، برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان موجود ہے، جس سے دونوں ممالک اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔‘

پاکستان خشکی سے گھرے اور معاشی طور پر کمزور افغانستان کے لیے اشیائے خورد و نوش اور سامانِ تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

امریکا اور چین کی ثالثی کی پیشکش
حالیہ جھڑپوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ بھی حاصل کر لی ہے۔ واشنگٹن سے اسرائیل جاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی اس مسٔلے پر توجہ دیں گے۔ “میں سن رہا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ جاری ہے۔

میں نے کہا، جب واپس آؤں گا تو اسے دیکھوں گا، آپ جانتے ہیں، میں ایک اور مسئلہ سلجھا رہا ہوں کیوں کہ میں جنگیں ختم کرنے اور امن قائم کرنے میں ماہر ہوں۔‘

چین جو افغانستان اور پاکستان دونوں سے مغربی خطے میں متصل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، نے تازہ جھڑپوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے پیر کو بیجنگ میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ”چین پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر اور ترقی دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔“

اپنا تبصرہ بھیجیں