سوشل میڈیا پر عائد عارضی پابندی کے بعد نیپال میں بھڑکنے والے پُرتشدد مظاہروں نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ وزیرِاعظم کے پی شرما اولی مستعفی ہو گئے اور فوج کو امن و امان کی بحالی کے لیے تعینات کر دیا گیا ہے۔
منگل کو سامنے آنے والی ایک ویڈیو نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا: وزرا اور ان کے اہل خانہ کو فوجی ہیلی کاپٹر کی ریسکیو رسی سے لپٹ کر فرار ہوتے دیکھا گیا۔ یہ منظر اس وقت کا ہے جب مشتعل مظاہرین نے دارالحکومت کو بدامنی اور آگ و خون کے مناظر میں تبدیل کر دیا۔
پارلیمان اور وزیروں کے گھروں پر حملے
‘جن زی’ کی قیادت میں لاکھوں مظاہرین نے پارلیمان کی عمارت کو آگ لگا دی اور وزرا کے گھروں پر حملے کیے۔
وزیرِ اطلاعات پرتھوی سبا گرونگ کا گھر جلادیا گیا۔
نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خزانہ بشنو پاوڈیل کی رہائش گاہ پر پتھراؤ کیا گیا۔
نیپال رسترا بینک کے گورنر بشوو پاوڈیل کے گھر پر بھی حملہ ہوا۔
سابق وزیرِ داخلہ رامیش لکھیک کا گھر بھی آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔
ایک ویڈیو میں وزیرِ خزانہ کو سڑک پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد سہتے اور لاتیں کھاتے دکھایا گیا۔
ایک اور ویڈیو میں مظاہرین نے وزیرِ خارجہ ارزو رانا دیوبا اور ان کے شوہر، سابق وزیرِاعظم شیر بہادر دیوبا کو ان کے گھر میں نشانہ بنایا۔ مسٹر دیوبا خون میں لت پت ایک کھیت میں بیٹھے بے یار و مددگار دکھائی دیے، جس کے بعد فوج نے انہیں ریسکیو کیا۔
ہیلی کاپٹر ریسکیو
ایک ویڈیو میں فوجی ہیلی کاپٹر کو ایک ہوٹل کے اوپر پرواز کرتے دیکھا گیا، جہاں ریسکیو باسکٹ کے ذریعے وزرا اور اہل خانہ کو بچایا جا رہا تھا۔ پس منظر میں دھوئیں کے بادل بلند ہوتے دکھائی دیے۔
جیل کا ٹوٹنا اور قیدیوں کی بغاوت
اس دوران مظاہرین نے جیلوں میں بھی آگ لگائی۔ قیدیوں نے مین گیٹ توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کی، مگر فوج نے انہیں قابو کر کے مختلف جیلوں میں منتقل کیا۔
احتجاج کا سبب
یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے فیس بک، ایکس اور یوٹیوب پر پابندی عائد کی، الزام لگاتے ہوئے کہ یہ کمپنیاں سرکاری رجسٹریشن اور نگرانی کے عمل میں شامل نہیں ہوئیں۔ مگر جلد ہی یہ مظاہرے وسیع تر عوامی غصے میں بدل گئے۔