بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان قائم وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اپنا دورۂ بھارت منسوخ کردیا، جس کی وجہ اُن پر عائد سفری پابندیاں ہیں۔
یہ سفری پابندیاں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1988 کے تحت طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کے خلاف جون 2011 میں نافذ کی گئیں تھیں۔
طالبان اور القاعدہ رہنماؤں پر نہ صرف سفری بلکہ اثاثہ جات اور اسلحہ سے متعلق پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔
بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیا کہ بھارت نے امیر خان متقّی کے دورہ بھارت کے لیے سفری استثنٰی کی درخواست سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی جو مذکورہ بالا پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، میں دائر کی تھی جو منظور نہیں ہوئی کیونکہ کمیٹی کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے۔
نتیجتاً مجوزہ دورہ فی الحال منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق دورے کے لیے نئی تاریخوں کا اعلان دونوں ملکوں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
کیا افغان وزیرِ خارجہ کا دورۂ پاکستان بھی سفری پابندیوں کی وجہ سے منسوخ ہوا تھا؟
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا دورۂ پاکستان 4 اگست کو طے تھا جسے منسوخ کیا گیا۔ پاکستان دفترِخارجہ کا کہنا تھا کہ دورے کے حوالے سے کچھ مسائل تھے جن کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مختلف ذرائع سے یہ کہا گیا کہ اُس دورے کی منسوخی کی پیچھے مبینہ طور پر امریکی ناراضی تھی جس کی وجہ سے امیر خان متقّی کو سفری استثنٰی حاصل نہیں ہوا۔
امیر خان متقی کے دورۂ بھارت سے امریکی ناراضی کا کیا تعلق ہے؟
مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا دورہ، افغانستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کا اشارہ، اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
گزشتہ ماہ امریکا کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد ٹیرفس عائد کئے گئے جس سے بھارت کی مشکلات میں اِضافہ ہوا۔ دوسری طرف امریکا اور افغانستان کے تعلقات فی الوقت ایک مشکل مرحلے سے گُزر رہے ہیں جن میں مبیّنہ طور پر بڑی رُکاوٹ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ہے۔
گزشتہ اور موجودہ امریکی حکومت، افغان طالبان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات کرتی چلی آئی ہے۔
مجوزہ ڈیل کی رُو سے امریکی انتظامیہ گوانتانامہ بے میں قید محمد رحیم الافغانی کو طالبان حکومت کے حوالے کرے گی، بدلے میں طالبان کو 3 امریکی ریان کاربِٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کو امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔
مذاکرات اِس بات پر تعطّل کا شکار ہیں کہ افغاں طالبان کا کہنا ہے کہ محمود حبیبی اُن کے تحویل میں نہیں۔ جس وجہ سے امریکا اور طالبان کے درمیان تلخی ہے۔ امیر خان متقی پر سے سفری پابندیوں کے ہٹائے نہ جانے کا ایک ممکنہ سبب امریکی ناراضی بھی ہوسکتی ہے۔
بھارت اور افغانستان کے تعلقات
15 اگست 2021 سے قبل اشرف غنی کی افغان حکومت اور بھارت کے درمیان تمام شعبوں میں بہت اچھے تعلقات تھے اور توقع تھی کہ طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی شاید وہ نوعیت نہ ہو، لیکن طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی بھارت نے نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے۔
گزشتہ دنوں افغانستان میں آنے والے زلزلے کے بعد بھارت نے جلد ریلیف کا سامان بھجوایا۔ اگرچہ بھارت نے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، اِس کے باوجود تعلقات کی نوعیت بہت اچھی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے واپسی پر افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا تو بھارت میں کافی تنقید ہوئی کہ بھارتی پنجاب اور کشمیر میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر وزیراعظم مودی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت نے جوائنٹ سیکریٹری جی پی سنگھ کی قیادت میں وفد کابل بھیجا جس نے مذاکرات کے بعد انسانی امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے تکنیکی ٹیم کو تعیّنات کیا اور بھارتی سفارتخانہ جزوی طور پر بحال کیا۔
گزشتہ برس بھارت نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ بھی کیا۔ امسال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع پر بھی افغانستان نے پہلگام حملے کی مذمت تو کی لیکن پاکستان پر بھارتی حملے کی مذمت نہیں کی۔
کسی بھی وزیرِ خارجہ کا دورہ انتہائی اہم ہوتا ہے، ہارون رشید
بین الاقوامی صحافتی ادارے انڈیپنڈنٹ اردو سے وابستہ افغان اُمور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی ہارون رشید نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو سفری استثنٰی کے نہ مِلنے میں بظاہر امریکی دباؤ اور امریکی ناراضگی نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ دونوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہو پا رہی۔ جب کسی مُلک کا وزیرِ خارجہ کسی دوسرے مُلک کا دورہ کرتا ہے تو یہ اعلیٰ سطح دورہ ہوتا ہے۔
ہارون رشید نے کہا کہ دورے سے پہلے دونوں مُلکوں کے درمیان جن معاہدوں اور جن مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہونا ہوتے ہیں وہ فائنل کر دی جاتی ہیں۔
ہارون رشید نے بتایا کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان تاریخی نوعیت کے تعلقات ہیں جن میں خشک میوہ جات اور مصالحوں کی تجارت دوسرا بھارت افغانستان سے تعلقات کے ذریعے پاکستان کو تنگ کر سکتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے امیر خان متقّی کے دورۂ بھارت کی منسوخی غلط الزام ہے، طاہر خان
سینئر صحافی طاہرخان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن وہ نہیں آسکا کیونکہ دورے سے پہلے سفر کی اجازت لینا پڑتی ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ عام طور پر وزیرِ خارجہ کے لیے سفری استثنٰی کی مخالفت کم ہی ہوتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکا طالبان سے زیادہ ناراض ہے اس لیے مخالفت ہو رہی ہے۔
متقّی نے بھارت کا دورہ بھی کرنا تھا لیکن جب معلوم ہوا کہ سفری استثنٰی کے معاملے میں وہی ہوگا جو پاکستان کے دورے کے حوالے سے ہوا تو بھارت نے دورہ منسوخ کردیا۔
سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی اس طرح کے استثنٰی کا فیصلہ کرتی ہے وہ فیصلہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی رائے سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان سلامتی کونسل کا مستقل رُکن نہیں، اس لیے پاکستان کی مرضی سے دورہ منسوخ ہوا بے بنیاد بات ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ امیر خان متقّی نے روس، چین، قطر اور ترکیہ کے دورے کیے اُس وقت یہ رُکاوٹ حائل نہیں ہوئی۔
اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت ٹھیک نہیں، اُس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی ہے۔ دفترِ خارجہ بیان جاری کرتا ہے کہ افغان سرزمین پر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور ان سے پاکستان میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی کو روکے، یوں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں بھارت وہاں پر اپنی جگہ اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔