ہم جب بھی گوگل پر کچھ سرچ کرتے ہین تو ٹاپ پر ہمیں اس سوال یا خبر کے حوالے سے ایک خلاصہ مل جاتا ہے اور بسا اوقات ہم اسی کو دیکھ کر وہاں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ گوگل کی یہ نئی سہولت پبلشرز میں تشویش پیدا کر رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے آن لائن ٹریفک متاثر ہو رہا ہے
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق معروف اداکارہ سورچا کَیوسک کے بی بی سی ڈرامہ فادر براؤن چھوڑنے کی خبر رواں سال جنوری میں کئی اخبارات میں شائع ہوئی جن میں دی مرر اور ڈیلی ایکسپریس جیسے ادارے شامل تھے جو’ ریچ گروپ‘ کے تحت آتے ہیں۔ تاہم اس خبر کو وہ توجہ اور آن لائن ٹریفک حاصل نہیں ہوئی جس کی امید ایک سال قبل کی جا سکتی تھی۔
’ریچ گروپ‘ کے مطابق اس غیر متوقع کمی کی بڑی وجہ گوگل کا نیا فیچر ’ آرٹیفیشل انٹیلیجینس اوور ویوو‘ (اے آئی او) یا اے آئی خلاصہ ہے جو سرچ رزلٹس کے اوپر صارفین کو کسی موضوع کا خلاصہ فراہم کرتا ہے۔ اب صارفین اکثر مکمل خبر پر کلک کیے بغیر وہیں سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔
پبلشرز کا ریونیو خطرے میں
پہلے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے اشتہاراتی آمدنی میں کمی کا سامنا کرنے والے نیوز پبلشرز کے لیے گوگل سرچ سے آنے والا ٹریفک ایک قیمتی وسیلہ ہے۔
تاہم اب اے آئی اوورویوز کی وجہ سے صارفین کی جانب سے اصل خبروں پر کلک کرنے کا رجحان مزید کم ہو رہا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے رائٹرز انسٹیٹیوٹ میں اے آئی اور نیوز کے محقق ڈاکٹر فیلکس سائمن کا کہنا ہے کہ اے آئی او سے متعلق سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ لوگ مکمل خبر پر کلک نہیں کررہے جس کا براہ راست نقصان پبلشرز کو ہے۔
میل آن لائن، میٹرو اور دیگر اداروں کے مالک ادارہ ڈی ایم جی میڈیا نے برطانیہ کی مسابقتی مارکیٹ اتھارٹی کو بتایا کہ اے آئی او کی وجہ سے کلک تھرو ریٹ میں 89 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔
’ہم مواد تیار کرتے ہیں، لیکن فائدہ دوسروں کو پہنچتا ہے‘
ریچ کے چیف ڈیجیٹل پبلشر ڈیوڈ ہیگرسن کا کہنا ہے کہ پبلشرز وہ درست، بروقت اور قابل اعتماد مواد فراہم کرتے ہیں جس پر گوگل چلتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہمیں ایک کلک ملتا تھا جس سے ہم سبسکرپشن یا اشتہارات کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے تھے لیکن اب گوگل اوور ویووز کی وجہ سے صارف کو ہماری ویب سائٹ پر آنے کی ضرورت ہی نہیں رہی اور اس سب کا کوئی مالی فائدہ ہمیں نہیں ملتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ معلومات کو تقسیم کرنے والا ادارہ اصل مواد تخلیق کرنے والا نہیں ہوتا لیکن تمام مالی فائدہ وہی سمیٹ لیتا ہے۔
AI Mode (اے آئی موڈ) مستقبل کا ایک بڑا خطرہ؟
گوگل کی جانب سے متعارف کرایا گیا ایک اور فیچراے آئی موڈ بھی زیر بحث ہے جو سرچ رزلٹس کو مکالماتی انداز میں پیش کرتا ہے لیکن اس میں روایتی نتائج کے مقابلے میں کہیں کم لنکس دکھائے جاتے ہیں۔
ہیگرسن کہتے ہیں کہ اگر گوگل مکمل طور پر اے آئی پر چلا گیا اور صارفین نے اس کو اپنا لیا تو یہ پبلشنگ انڈسٹری کے لیے تباہ کن ہو گا۔
باؤر میڈیا کے ایس ای او ڈائریکٹر اسٹیورٹ فاریسٹ کا کہنا ہے کہ ہم ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کم کلکس اور کم ریفرل ٹریفک ہی معمول بن جائے گا۔
اگرچہ باؤر کی ویب سائٹس جیسے گرازیا اور ایمپائر پر تاحال اے آئی او کا کوئی منفی اثر نہیں دیکھا گیا لیکن فاریسٹ کے مطابق یہ چیلنج مستقبل میں ضرور سر اٹھائے گا۔
ہم ویب پر سب سے زیادہ ٹریفک بھیجتے ہیں، گوگل کا دعویٰ
گوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کمپنی دیگر کسی بھی ادارے کے مقابلے میں ویب سائٹس کو سب سے زیادہ ٹریفک بھیجتی ہے۔
اگست میں ایک بلاگ پوسٹ میں گوگل سرچ کی سربراہ لز ریڈ نے کہا کہ گوگل سرچ سے ویب سائٹس پر جانے والی کلک کی مقدار سال بہ سال تقریباً مستحکم رہی ہے بلکہ ان کلکس کا معیار بھی بہتر ہوا ہے کیونکہ اب صارفین لنک پر کلک کے فوراً بعد واپس نہیں آتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی او کے باعث صارفین زیادہ اور پیچیدہ سوالات کر رہے ہیں اور اب انہیں صفحات پر پہلے سے زیادہ لنکس دکھائی دے رہے ہیں جس سے ویب سائٹس کو نظر آنے اور کلک ہونے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔
قانونی چارہ جوئی کا راستہ
جولائی میں دی انڈیپینڈینٹ پبلشرز الائنس، فاکس گلوو اور موومنٹ فار این اوپن ویب نے برطانیہ کی کمپیٹیشن ایںڈ مارکیٹس اتھارٹی کے حضور گوگل کے خلاف شکایت درج کرائی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ گوگل کے اے آئی او بغیر اجازت پبلشرز کے مواد کو استعمال کر رہے ہیں جس سے میڈیا اداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
درخواست گزار چاہتے ہیں کہ اتھارٹی گوگل کو عبوری اقدامات کے ذریعے روکے تاکہ پبلشرز کے مواد کو اے آئی جوابات میں غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
پبلشرز کی حکمت عملی
پبلشرز اب اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اے آئی او میں کیسے نمایاں ہوں اور وہاں سے کچھ نہ کچھ ٹریفک حاصل کریں۔
ہیگرسن کے مطابق گوگل ہمیں کوئی گائیڈ بک نہیں دیتا بلکہ ہمیں اپنے طور پر تجربے کر کے مواد کو اس طرح بہتر بنانا ہوتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد یعنی قاری کی معلوماتی ضرورت متاثر نہ ہو۔
فاریسٹ کہتے ہیں کہ ہمیں یقینی بنانا ہے کہ حوالہ ہم سے لیا جائے ہمارے حریفوں سے نہیں اور اس کے لیے معیاری مواد کی تیاری بنیادی ہتھیار ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے پبلشرز یہ کوشش ترک کر چکے ہیں۔
ریچ جیسے ادارے اب متبادل ذرائع سے قارئین سے رابطہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے واٹس ایپ الرٹس، نیوز لیٹرز اور مخصوص ویب تجربات۔ ہیگرسن کا کہنا ہے ہمیں اپنے قارئین وہاں تلاش کرنا ہے جہاں وہ موجود ہیں اور ان کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے کہ جب وہ دوبارہ معلومات کے لیے آئیں تو وہ کسی تیسرے ذریعے سے نہیں بلکہ سیدھا ہماری ویب سائٹ پر آئیں۔