پاکستان میں معاشی مردم شماری کے حالیہ اعداد و شمار نے ایک دلچسپ تقابل کو نمایاں کیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں صرف 23 ہزار فیکٹریاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد چائے کے ڈھابے اور ہوٹل سرگرم ہیں۔ یہ فرق بظاہر چونکا دینے والا ہے لیکن ماہرین کے نزدیک یہ پاکستان کے سماجی رجحانات اور ثقافتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے اور کسی حد تک فطری بھی ہے۔
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق سماجی محقق احمد اعجاز کے مطابق اس رجحان کو غیر معمولی قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ چائے خانوں اور ہوٹلوں کی بڑی تعداد اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی معاشرہ تفریح کو کھانے پینے کی سرگرمیوں سے جوڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ پکنک پر بھی یہی سوچ کر جاتے ہیں کہ کیا کھائیں گے۔
یہ صرف کھانے کا شوق نہیں بلکہ محدود تفریحی سہولیات اور سماجی روابط کی مضبوطی کا بھی نتیجہ ہے۔
چائے خانے سماجی مراکز
سماجی مورخ سجاد اظہر اس پہلو کو اور گہرائی سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول یورپ میں لوگ مصروف ہوتے ہیں اور یہاں فرصت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں سماجی میل جول زیادہ ہے لوگ گھنٹوں چائے پیتے اور باتیں کرتے ہیں۔ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے اور معاشرے کو زیادہ انسان دوست بناتا ہے۔
ان کے مطابق چائے خانے صرف چائے فروخت کرنے کی جگہ نہیں بلکہ گفتگو، تبادلہ خیال اور تعلقات کے اہم مراکز ہوتے ہیں۔
چائے کا بڑھتا ہوا رجحان
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہر سال ڈھائی لاکھ ٹن سے زائد چائے استعمال کرتا ہے اور دنیا کے بڑے چائے درآمد کنندگان میں شامل ہے۔
یہ رجحان نہ صرف صارفین کے ذوق کو ظاہر کرتا ہے بلکہ چھوٹے کاروبار کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سجاد اظہر کا کہنا ہے کہ فیکٹریاں سامان بناتی ہیں مگر چائے خانے بات چیت اور خیال پیدا کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مقامی معیشت اور سماجی زندگی دونوں کو سہارا دیتے ہیں۔
تشویش کا پہلو؟
ماہرین اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ فیکٹریوں کی کم تعداد معاشی ترقی کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے لیکن ڈھابوں اور چائے خانوں کی زیادہ تعداد خود کوئی منفی علامت نہیں بلکہ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے بہتر منصوبہ بندی اور تربیت کے ذریعے مزید معاشی مواقع میں بدلا جا سکتا ہے۔