شام کی تیل برآمدات 14 سال بعد بحال، طرطوس بندرگاہ سے 6 لاکھ بیرل روانہ

شام نے 14 سال بعد پہلی بار خام تیل برآمد کیا ہے، گزشتہ روز طرطوس کی بندرگاہ سے 6 لاکھ بیرل بھاری خام تیل ایک تجارتی کمپنی کو فروخت کے معاہدے کے تحت بھیجا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ شامی تیل کی پہلی سرکاری برآمد ہے جو 14 سال کے وقفے کے بعد عمل میں آئی ہے، 2010 میں شام روزانہ 3 لاکھ 80 ہزار بیرل تیل برآمد کرتا تھا، لیکن ایک سال بعد صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی احتجاج نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی، جس نے معیشت اور تیل کی پیداوار سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔

بشار الاسد کو گزشتہ سال دسمبر میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، اور نئی حکومت نے معیشت کی بحالی کا وعدہ کیا ہے۔

شامی توانائی وزارت کے تیل و گیس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریاض الجباسی نے بتایا کہ یہ خام تیل بی سرو انرجی کو فروخت کیا گیا ہے۔ یہ کمپنی عالمی تیل تجارتی ادارے بی بی انرجی سے منسلک ہے، وزارت کے بیان کے مطابق یہ تیل ’نیسوس کرسٹیانا‘ نامی ٹینکر کے ذریعے برآمد کیا گیا۔

شامی عہدیدار نے بتایا کہ تیل مختلف شامی آئل فیلڈز سے نکالا گیا ہے، تاہم انہوں نے ان فیلڈز کے نام ظاہر نہیں کیے، زیادہ تر شامی تیل کے ذخائر شمال مشرقی علاقے میں ہیں جو کرد قیادت کے زیرِ انتظام ہیں۔

ان کرد حکام نے فروری میں دمشق کی مرکزی حکومت کو تیل فراہم کرنا شروع کیا تھا، لیکن بعد میں باہمی اختلافات اور اقلیتوں کے حقوق کے مسئلے پر تعلقات کشیدہ ہو گئے۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران آئل فیلڈز کئی بار ہاتھ بدل چکے ہیں جبکہ امریکی و یورپی پابندیوں نے برآمدات و درآمدات کو پیچیدہ بنا دیا تھا، بشار الاسد کی معزولی کے بعد بھی کئی ماہ تک پابندیاں برقرار رہیں جس سے نئی حکومت کو توانائی کی درآمد میں دشواری کا سامنا رہا۔

تاہم جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر سے امریکی پابندیاں ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس کے بعد امریکی کمپنیوں نے شامی تیل و گیس کی تلاش و پیداوار کے لیے ماسٹر پلان تیار کرنا شروع کر دیا۔

اس کے علاوہ شام نے دبئی کی کمپنی ڈی پی ورلڈ کے ساتھ 800 ملین ڈالر کا معاہدہ بھی کیا ہے، جس کے تحت طرطوس کی بندرگاہ پر ایک کثیرالمقاصد ٹرمینل کی تعمیر اور انتظام شامل ہے، یہ معاہدہ اس وقت کیا گیا جب شام نے ایک روسی کمپنی کے ساتھ بندرگاہ کے انتظام کا سابقہ معاہدہ منسوخ کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں