اقوام متحدہ کی جانب سے نیویارک میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے حوالے سے منعقدہ عالمی کانفرنس میں امریکہ نے شرکت سے انکار کرتے ہوئے اسے ”غیر مؤثر اور نامناسب وقت پر ہونے والی“ کانفرنس قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ یہ کانفرنس دراصل ایک تشہیری حربہ ہے جو نہ صرف امن کی راہ میں رکاوٹ بنے گی بلکہ حماس کو مزید تقویت دے گی۔
ٹیمی بروس نے بیان میں کہا کہ ’یہ اقدام سات اکتوبر کے حملے میں مارے گئے لوگوں کی توہین اور دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے‘۔ ان کے مطابق یہ کانفرنس جنگ بندی کی موجودہ کوششوں کو سبوتاژ کرتی ہے اور یرغمالیوں کی رہائی کے امکانات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ ’امریکہ اس بے وقت اور اشتعال انگیز کانفرنس کا حصہ نہیں بنے گا، بلکہ غزہ میں جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے عملی سفارتی کوششوں کی قیادت جاری رکھے گا۔ ہمارا زور سنجیدہ اور مؤثر سفارت کاری پر ہے، نہ کہ ایسی تقریبات پر جو صرف دکھاوے کی اہمیت بناتی ہیں‘۔
بیان میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ حماس نے میکرون کے اعلان کا خیر مقدم کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے اعلانات دراصل حماس کی ہٹ دھرمی اور جنگی پالیسیوں کو تقویت دیتے ہیں اور غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
میں نہیں جانتا اب غزہ میں کیا ہوگا، صدر ٹرمپ
اقوام متحدہ کی یہ کانفرنس دراصل جون میں طے شدہ تھی، مگر اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ جنگ کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔ کانفرنس کی مشترکہ میزبانی فرانس اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ کانفرنس صرف اچھی نیتوں پر مبنی بیانات تک محدود نہ رہ جائے بلکہ حقیقی حل کی طرف پیش رفت ہو۔‘
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک جامع راستہ متعین کریں، جس میں اسرائیل کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی، جبکہ امریکہ نے اس کے انعقاد کو امن کوششوں کے برعکس قرار دیا ہے۔