امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ کوکا کولا کمپنی نے ان کی تجویز پر اپنی امریکی مصنوعات میں ’اصلی گنے کی چینی‘ استعمال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ تاہم کمپنی نے اس تبدیلی کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی۔
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق اگر یہ تبدیلی عمل میں آتی ہے تو یہ امریکا میں فروخت ہونے والے کوک کو میکسیکو اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں دستیاب ورژنز کے برابر لا کھڑا کرے گا، جہاں پہلے ہی گنے کی چینی استعمال کی جاتی ہے۔ البتہ اس فیصلے کا ٹرمپ کی پسندیدہ مشروب ڈائیٹ کوک پر کوئی اثر نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں کیلوریز سے پاک مصنوعی مٹھاس ’ایسپرٹیم‘ استعمال ہوتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ’ میں کوکا کولا سے بات کر رہا تھا کہ وہ امریکا میں کوک میں اصلی گنے کی چینی استعمال کریں، اور وہ اس پر متفق ہو گئے ہیں۔ میں کوکا کولا کے تمام ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ان کا بہت اچھا قدم ہوگا، آپ دیکھیں گے، یہ بس بہتر ہے‘۔
کوکا کولا کمپنی (جس کا صدر دفتر اٹلانٹا میں ہے) نے ایک بیان میں ٹرمپ کے جوش و جذبے کو سراہا اور کہا کہ جلد ہی وہ اپنی مصنوعات میں نئی تبدیلیوں کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ تاہم کمپنی نے اس مخصوص تبدیلی (گنے کی چینی کے استعمال) پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوکا کولا امریکا میں 2005 سے میکسیکن کوک (جو گنے کی چینی سے تیار کی جاتی ہے) کی بوتلیں درآمد کر رہا ہے، جو صارفین میں خاصی مقبول ہیں۔
دوسری جانب، اس ممکنہ تبدیلی سے امریکہ میں کارن سیرپ انڈسٹری متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ ہائی فریکٹوز کارن سیرپ (HFCS) امریکی مصنوعات میں عام استعمال ہونے والی مٹھاس ہے۔
کارن ریفائنرز ایسوسی ایشن کے صدر جان بوڈے نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہائی فریکٹوز کارن سیرپ کو گنے کی چینی سے بدلنا کوئی عقلمندی نہیں۔ صدر ٹرمپ امریکی زراعت، خوراک سازی اور مقامی صنعت کی حمایت کرتے ہیں، مگر یہ تبدیلی ہزاروں امریکی ملازمتیں ختم کر سکتی ہے، کسانوں کی آمدنی کم کرے گی، اور غیر ملکی چینی کی درآمد میں اضافہ کرے گی — جب کہ غذائی اعتبار سے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ خود ڈائیٹ کوک کے اتنے دلدادہ ہیں کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اوول آفس کی میز پر ایک سرخ بٹن لگوا رکھا تھا، جسے دبا کر وہ اپنی خدمت میں ڈائیٹ کوک منگوا لیتے تھے۔
اگرچہ وہ ڈائیٹ کوک کے رسیا رہے ہیں، مگر کوکا کولا کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار نہیں رہے۔
2012میں ٹوئٹس کی ایک سیریز میں انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ڈائیٹ مشروبات وزن بڑھانے سے منسلک ہو سکتے ہیں، اور آخر میں لکھا کہ ’کوکا کولا کمپنی مجھ سے خوش نہیں، مگر کوئی بات نہیں، میں پھر بھی وہ ‘کچرا’ پیتا رہوں گا‘۔
بعد ازاں 2017 میں جی 20 اجلاس کے دوران ان کی نشست کے قریب ڈائیٹ کوک کی بوتل دیکھی گئی، اور نیویارک ٹائمز نے 2018 میں رپورٹ کیا کہ وہ روزانہ 12 ڈائیٹ کوکس پیتے تھے۔