اسرائیل کی الٹرا آرتھوڈوکس سیاسی جماعت یونائیٹڈ توراہ جوڈازم یعنی یو ٹی جے نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی سربراہی میں قائم حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے، اس اقدام کے بعد نیتن یاہو کو پارلیمنٹ میں صرف ایک نشست کی معمولی اکثریت حاصل رہ گئی ہے۔
یہ فیصلہ فوجی بھرتی کے متنازع بل پر حکومتی وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی کے باعث کیا گیا، یوٹی جے کے 6 ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنے استعفے جمع کرا دیے ہیں جبکہ پارٹی کے سربراہ یتزحاق گولڈکنوف پہلے ہی ایک ماہ قبل عہدہ چھوڑ چکے تھے۔
یو ٹی جے کے اہم دھڑے ڈیگل ہتورا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارٹی کے اعلیٰ ربی صاحبان سے مشاورت اور حکومت کی بار بار وعدہ خلافی کے بعد، جس میں مقدس مدارس کے طلبا کے اسٹیٹس کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا تھا، ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ نے اتحاد اور حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
یوٹی جے کی علیحدگی کے بعد نیتن یاہو کے اتحاد کو 120 رکنی پارلیمنٹ میں، جسے کنیسٹ کہا جاتا ہے، صرف 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جو حکومت کی بقا کے لیے کمزور بنیاد سمجھی جا رہی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ الٹرا آرتھوڈوکس جماعت شاس بھی یو ٹی جے کے اس فیصلے کی پیروی کرے گی یا نہیں۔
یاد رہے کہ یشیوا یعنی مذہبی مدارس کے طلبا کو لازمی فوجی سروس سے استثنا دینے کے بل کو الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں نے 2022 میں حکومتی اتحاد میں شمولیت کی بنیادی شرط قراردیا تھا۔
مزید پڑھیں:نیتن یاہو حکومت بچ گئی، پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اپوزیشن بل مسترد
تاہم گزشتہ برس اسرائیلی سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع کو حکم دیا تھا کہ وہ یہ استثنا ختم کرے اور مذہبی طلبا کو بھی دیگر شہریوں کی طرح فوج میں بھرتی کرے۔
فوجی سروس کا یہ تنازع ایسے وقت میں شدت اختیار کر گیا ہے جب اسرائیلی فوج غزہ میں جنگ میں مصروف ہے، اور فوجی افرادی قوت کی کمی ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
نیتن یاہو اس بحران کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے مگر یوٹی جے کے حالیہ فیصلے سے ان کی حکومت کو شدید سیاسی دھچکا لگا ہے اور نئی سیاسی کشیدگی جنم لے چکی ہے۔