بنا انسانی مداخلت روبوٹک سرجری سے پِتّے کا کامیاب آپریشن اہم سنگ میل قرار

امریکا کی جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین نے روبوٹک سرجری کے میدان میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے، جہاں مصنوعی ذہانت سے لیس ایک روبوٹک سسٹم نے بغیر کسی انسانی مداخلت کے پِتہ (gallbladder) نکالنے کے آپریشن کامیابی سے انجام دیے۔
محققین کے مطابق یہ ایک اہم سنگِ میل ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ روبوٹس مستقبل میں بعض سرجیکل اقدامات مکمل خودکار طور پر انجام دے سکیں گے۔

یہ کامیابی نئے تیار کردہ سسٹم سرجیکل روبوٹ ٹرانسفارمر-ہائیرارکی (SRT-H) کے ذریعے حاصل کی گئی، جسے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر وژن سے لیس کیا گیا ہے تاکہ وہ ویڈیوز اور تصاویر کو انسانوں کی طرح سمجھ سکے۔

اسے انسانی سرجنز کی طرف سے خنزیروں پر کی جانے والی سرجری کی ویڈیوز دکھائی گئیں اور ساتھ نیچرل لینگویج میں ہدایات دی گئیں۔ روبوٹ نے ان ویڈیوز سے سیکھتے ہوئے 8 بار پِتہ نکالنے کا عمل مکمل درستگی کے ساتھ دہرایا۔

اس سسٹم میں یہ خاصیت بھی موجود ہے کہ وہ دورانِ آپریشن انسانی آوازوں پر مبنی ہدایات جیسے ’گالبلیڈر کو تھامو‘ یا ’بائیں بازو کو تھوڑا بائیں کرو‘ پر عمل کر سکتا ہے اور ان ہدایات سے سیکھتا بھی ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جب محققین نے سرجری کے ماحول میں تبدیلی کرتے ہوئے خون سے مشابہہ رنگ شامل کیے تاکہ بافتوں کی پہچان مشکل ہو جائے، تب بھی روبوٹ نے پوری درستگی سے کام کرتے ہوئے کلپس لگائے اور مطلوبہ حصوں کو کاٹ کر الگ کیا۔
ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت اس لیے اہم ہے کیونکہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں پِتہ نکالنے کی سرجریاں کی جاتی ہیں، اور یہ خودکار روبوٹس ان روٹین آپریشنز میں مددگار بن سکتے ہیں۔

سسٹم کے مرکزی محقق اور جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایکسل کریگر کے مطابق یہ ٹیکنالوجی صرف مخصوص کام کرنے والے روبوٹس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے روبوٹس کی طرف جا رہی ہے جو پورے آپریشن کو سمجھ سکتے ہیں اور دورانِ عمل بدلتے حالات میں خود کو ڈھال سکتے ہیں۔

کریگر کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم مصنوعی ذہانت کے اسی ماڈل پر بنایا گیا ہے جو چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرامز میں استعمال ہوتا ہے، اور یہ مریض کے جسمانی خدوخال کو براہِ راست دیکھتے ہوئے فوری فیصلے کرنے اور خود کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دیگر ماہرین نے بھی اس کامیابی کو ’ابتدائی لیکن غیر معمولی پیشرفت‘ قرار دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کو انسانوں پر آزمانے سے قبل طویل تربیت، تجربات، قانونی منظوری، حفاظت اور مؤثریت جیسے اہم پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
جانز ہاپکنز کی ٹیم کا اگلا ہدف اس ٹیکنالوجی کو مزید پیچیدہ آپریشنز جیسے ہرنیا یا دیگر باقاعدہ جراحیوں میں استعمال کے قابل بنانا ہے، تاکہ روبوٹک سرجنز نہ صرف مستقل درستگی سے کام کریں بلکہ وہ حالات میں بھی بہترین کارکردگی دکھا سکیں جہاں انسانی سرجنز کی کارکردگی تھکن یا جسمانی رعشے سے متاثر ہو سکتی ہے۔
تاہم ماہرین متفق ہیں کہ ابھی مکمل خودمختار روبوٹک سرجری کے عملی نفاذ کے لیے ایک طویل سفر درکار ہے، لیکن یہ کامیابی یقیناً اس سفر کی ایک بڑی شروعات ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں