کینسر کے مریضوں کے لیے امید کی کرن: کیمو تھراپی کے دوران بال جھڑنے سے بچاؤ کا نیا طریقہ دریافت

شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کینسر کے مریضوں کے لیے ایک انقلابی طریقہ دریافت کیا ہے، جو کیمو تھراپی کے دوران بالوں کے جھڑنے کو نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق، ”اسکیلپ کولنگ“ یعنی سر کی ٹھنڈک اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور لوشن کا امتزاج بالوں کے فولیکلز کو کیموتھراپی سے ہونے والے نقصان سے بچا سکتا ہے۔

یہ طریقہ کار پہلے سے موجود ”کولڈ کیپس“ تکنیک کو مزید مؤثر بناتا ہے۔ کولڈ کیپس سر کی جلد میں خون کے بہاؤ کو محدود کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں کیمو کے مضر اثرات سر کی جلد تک کم پہنچتے ہیں۔ نئی تحقیق میں پایا گیا کہ اگر سر کو 18 ڈگری سیلسیئس تک ٹھنڈا رکھا جائے تو بالوں کی جڑوں کو بہتر طور پر بچایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، محققین نے سر پر ایسے اینٹی آکسیڈنٹ اجزاء پر مشتمل لوشن لگایا جن میں کچھ اجزاء سرخ انگور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس طریقے نے کولنگ کے اثر کو دوگنا مؤثر بنا دیا۔ ماہرین نے اس پیش رفت کو ”ایک سنگ میل“ قرار دیا ہے جو مستقبل میں آنکولوجی کلینکس میں مریضوں کی دیکھ بھال کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔

شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی میں سیل بایولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نک جارجوپولوس کہتے ہیں کہ ’بالوں کا جھڑنا کینسر کا چہرہ بن چکا ہے، اور ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کولنگ اور اینٹی آکسیڈنٹ کا امتزاج ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ طریقہ کار کیمو تھراپی کے ایک عام اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے والے سائیڈ ایفیکٹ کا مؤثر حل پیش کرتا ہے۔ مریضوں کی زندگی کے معیار میں بہتری کے لیے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے‘

تحقیق کو معروف سائنسی جریدے ”Frontiers in Pharmacology“ میں شائع کیا گیا، جس میں سائنسدانوں نے انسانی سر سے حاصل کیے گئے بالوں کے فولیکلز کو لیبارٹری میں پروان چڑھایا اور انہیں کیمو تھراپی کے زیر اثر رکھا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ مناسب درجہ حرارت پر ٹھنڈک دینے سے خلیات کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔

شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی پریس ریلیز کے مطابق، کیمو تھراپی کے زیر علاج تقریباً 65 فیصد مریض بالوں کے جھڑنے کا سامنا کرتے ہیں، جبکہ 47 فیصد خواتین مریضوں کے نزدیک یہ ان کے علاج کا سب سے صدمہ انگیز پہلو ہوتا ہے۔

یہ نئی تحقیق نہ صرف مریضوں کے جسمانی اثرات کو کم کرنے میں مدد دے گی بلکہ ان کی ذہنی صحت اور خوداعتمادی پر بھی مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ مستقبل قریب میں دنیا بھر کے کینسر مریضوں کے لیے ایک نیا معیار بن سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں