مالی سال 25-2024 کے دوران تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی میں 178 ارب روپے کا اضافہ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی ایف بی آر نے مالی سال 25-2024 کے دوران تنخواہ دار طبقے سے 545 ارب روپے کا ریکارڈ انکم ٹیکس جمع کیا ہے، جس کے بعد یہ طبقہ تمام دیگر شعبوں میں سب سے زیادہ براہ راست ٹیکس ادا کرنے والا بن گیا ہے۔

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے کی انکم ٹیکس کی مد میں ادائیگی برآمد کنندگان کے مقابلے میں تین گنا اور تاجروں کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ رہی ہے، ڈالر میں آمدنی حاصل کرنیوالے برآمد کنندگان نے صرف 180 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔

دوسری جانب ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں سے مضبوط روابط رکھنے والےتاجر طبقے نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعات جی 236 اور ایچ 236کے تحت مجموعی طور پر صرف 62 ارب روپے کا ٹیکس دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 178 ارب روپے زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے، مالی سال 2023-24 میں تنخواہ دار طبقے کی طرف سے 367 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا تھا جو 2024-25 میں بڑھ کر 545 ارب روپے تک پہنچ گیا۔

اس واضح اضافے کے باوجود تاجر اور برآمد کنندہ طبقے کی ٹیکس ادائیگی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھا گیا, حکومت کی جانب سے گزشتہ سال تاجر دوست اسکیم یعنی ٹی ڈی ایس متعارف کرائی گئی تھی تاکہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے، تاہم یہ اسکیم بری طرح ناکام رہی۔

اب ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے تمام تاجروں کے خلاف سخت اقدامات کرے گا جو رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوتے۔

ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کے دوران تاجروں سے شق جی 236 اور ایچ 236 کے تحت محصولات اکٹھے کیے۔ شق جی 236 کے تحت کھاد کے علاوہ تمام اشیا کی سپلائی کرنے والے ڈسٹری بیوٹرز، ڈیلرز اور ہول سیلرز پر فروخت کا 2 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔

دوسری جانب شق 236 ایچ کے تحت ایسے ریٹیلرز جو ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی سیلز پر 2.5 فیصد ٹیکس وصول کیا گیا، یہ اقدامات دراصل نان فائلرز کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ یا تو اپنی اصل آمدنی پر ٹیکس دیں یا اپنی مجموعی سیلز پر بالواسطہ ٹیکس ادا کریں۔

اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے ایف بی آر کے ترجمان اور ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر نجیب میمن نے بتایا کہ حکومت نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کے لیے ابتدائی 2 ٹیکس سلیبز میں رعایت دی ہے۔ ان کے مطابق پہلی سلیب، یعنی سالانہ آمدنی 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک، پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دی گئی ہے۔

اسی طرح دوسری سلیب، یعنی 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر نجیب کے مطابق ان تبدیلیوں سے موجودہ مالی سال 2025-26 میں تنخواہ دار طبقے کو 50 ارب روپے کا ریلیف ملنے کا امکان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر اب ان تمام افراد کی نگرانی کرے گا جو ٹیکس نیٹ سے باہر رہ کر بینک اکاؤنٹس، نئی گاڑیاں یا پراپرٹی خریدنے کی کوشش کریں گے، ان کے مطابق اگر کوئی شخص مالی لین دین، سرمایہ کاری یا بڑے اثاثے خریدنے کا خواہش مند ہے تو مستقبل میں اس کا ٹیکس نیٹ سے باہر رہنا ممکن نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں