سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا فیصلہ، اب اسلام آباد کا نظام کیسے چلے گا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو تحلیل کرنے اور اس کے تمام اختیارات، اثاثے اور انتظامی ذمہ داریاں میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کو منتقل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق، سی ڈی اے کے تمام اختیارات، اثاثے اور انتظامی ذمہ داریاں ایم سی آئی کو منتقل کی جائیں گی۔ ایم سی آئی 2015 میں اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد شہری سہولیات کی فراہمی اور مقامی حکومت کے ذریعے گورننس کو فروغ دینا ہے۔

واضح رہے کہ سی ڈی اے 1960 میں وفاقی دارالحکومت کی ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے قائم کی گئی تھی۔ تاہم، عدالت نے قرار دیا کہ سی ڈی اے کا اصل مقصد مکمل ہو چکا ہے اور اب اس کی تحلیل ضروری ہے تاکہ اسلام آباد کی انتظامیہ شفاف، قابلِ احتساب اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کر سکے۔

لیکن دوسری جانب عوام میں یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ سی ڈی اے کے تحلیل ہونے سے اسلام آباد کو کیا چلنجز درپیش ہو سکتے ہیں؟

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کور کرنے والے تجربہ کار صحافی رانا غلام قادر نے اس بارے میں وی نیوز کو بتایا کہ ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ سی ڈی اے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سی ڈی اے کو ایک قانون کے تحت اختیار حاصل ہے۔ ایم سی آئی (میونسپل کارپوریشن اسلام آباد) بھی ایک قانون کے ذریعے قائم کی گئی ہے، لیکن دونوں کے اپنے اپنے دائرہ کار اور ذمہ داریاں واضح طور پر متعین ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے ایک نگران (ریگولیٹری) ادارہ ہے اور اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا نگہبان ہے اور پلاننگ ونگ، اسٹیٹ مینجمنٹ، اور انفراسٹرکچر کی ترقی سی ڈی اے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ جبکہ ایم سی آئی کے امور میں صفائی، بلدیاتی انتظامیہ، پانی کی فراہمی، کھیل و ثقافت، سڑکوں، مارکیٹوں اور پارکوں کی دیکھ بھال شامل ہیں۔

رانا غلام قادر نے بتایا کہ عدالت قانون سازی کے اختیارات نہیں لے سکتی۔ سی ڈی اے آرڈیننس پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ اس لیے عدالت کسی بھی آرڈیننس کو صرف اس صورت میں غیر قانونی قرار دے سکتی ہے اگر وہ آئین سے متصادم ہو۔ یہ سنگل بینچ کا فیصلہ ہے اور اسے ڈویژن بینچ میں چیلنج کیا جائے گا۔

سابق ڈائریکٹر جنرل (سوک مینجمنٹ) شاہ جہان کا اس معاملے پر مؤقف واضح اور آئینی بنیادوں پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ سی ڈی اے آرڈیننس کے سیکشن 15-اے کے مطابق، سی ڈی اے کا اصل کردار صرف سیکٹرز کی منصوبہ بندی اور ترقی تک محدود ہے، جبکہ ان سیکٹرز کے انتظامی و بلدیاتی امور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سپرد کیے جانے چاہئیں۔

شاہ جہان کا کہنا ہے کہ سی ڈی اے کوئی ریونیو جنریٹ کرنے والا ادارہ نہیں، بلکہ ایک ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے، اس لیے اس کے دائرہ کار کو محدود رکھا جانا ضروری ہے۔ اور اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام تر سی ڈی اے کے ڈیپارٹمنٹ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام ہوں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2015 میں بھی اسی نوعیت کی ایک کوشش کی گئی تھی، تاہم اس وقت متعدد رکاوٹیں سامنے آئیں، جن میں سے ایک بڑی رکاوٹ سی ڈی اے کے بعض افسران کی مزاحمت تھی، جو اپنے اختیارات میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو منتقل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

شاہ جہان کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ ادارہ جاتی حدود کو واضح کرتے ہوئے، سی ڈی اے کو اس کے اصل مقصد یعنی منصوبہ بندی اور ترقی تک محدود رکھا جائے، جبکہ روزمرہ بلدیاتی معاملات مقامی حکومت کے تحت چلائے جائیں۔

وفاقی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سی ڈی اے کی تحلیل کا عمل فوری طور پر شروع کرے اور مکمل کرے، تاکہ اختیارات کی منتقلی کا عمل شفاف اور قانونی طریقے سے مکمل ہو سکے۔

زنیرہ رفیع

اپنا تبصرہ بھیجیں