جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ رواں ہفتے جمعے کو جنیوا میں ایرانی ہم منصب کے ساتھ جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات کریں گے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق یورپی وزرائے خارجہ پہلے یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس سے جرمنی کے مستقل مشن پر ملاقات کریں گے جس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
جرمن سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات امریکا کی ہم آہنگی کے ساتھ ہو رہے ہیں، اور ان کا مقصد ایران سے سخت یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ وہ جوہری توانائی کا استعمال صرف پرامن سول مقاصد کے لیے کرے گا۔ مذاکرات کے بعد ماہرین کی سطح پر “اسٹرکچرڈ ڈائیلاگ” بھی ترتیب دیا گیا ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ تہران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ختم کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام عسکری نوعیت کا ہے۔
یورپی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایران تعاون پر آمادہ ہو جائے تو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا موقع پیدا ہو سکتا ہے ورنہ حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
ایران کا اسرائیل پر تازہ حملہ، درجنوں ڈرونز اور جدید ’سیجل‘ میزائل داغ دیے
ایران نے آپریشن وعدہ صادق سوم کے تحت اسرائیل پر 11ویں بار میزائل اور ڈرون داغ دیے، جس میں پہلی بار سیجل میزائل کا استعمال کیا گیا ہے۔
ایرانی میڈیا رپورٹ کے مطابق تہران کی جانب سے ایران کے شہر تل ابیب اور حیفہ پر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ طاقتور میزائل سیجل فائر کیے گئے ہیں، جو انتہائی بلندی پر سفر کر کے پھر اپنے ہدف تک کامیابی کے ساتھ پہنچتے ہیں۔
ایران نے دعوی کیا ہے کہ اُس کی جانب سے فائر کیے گئے ایک درجن میزائلوں میں سے چند نے کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ایران کی جانب سے میزائل فائر ہونے اور اسرائیلی حدود میں ڈرون و راکٹ داخل ہونے پر سائرن بھی بجائے گئے۔
ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے کیلیے اسرائیل کا دفاعی نظام ایکٹیو ہوا تاہم جدید میزائلوں کی وجہ سے یہ انہیں ہدف پر پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے تہران اور دیگر ایرانی علاقوں میں فضائی حملوں کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اب ہم میزائل سسٹم اور انہیں ذخیرہ کرنے والے مقامات کو نشانہ بنائیں گے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس نے کہا کہ آج رات تین مراحل میں حملے کیے گئے اور اس کے دوران اہم عسکری تنصیب سنٹری فیوجز کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہا تہران میں ہونے والے حملے کے دوران ایران کے ڈیفنس سسٹم نے اسرائیل کے عزائم کو خاک میں ملایا اور مداخلت کر کے میزائلوں کو فضا میں ہی نشانہ بناکر ختم کردیا۔
ایران میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند
ایران کی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے سائبر حملوں کے پیش نظر ملک بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کردیا ہے۔ وزارت انفارمیشن نے کہا کہ شہریوں اور ملکی دفاع کے پیش نے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
قبل ازیں ایران کی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) نے اسرائیل کے خلاف تازہ حملوں کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے “مقبوضہ علاقوں کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول” حاصل کر لیا ہے اور اسرائیلی دفاعی نظام ایرانی حملوں کے آگے بے بس ہو چکا ہے۔
اس سے پہلے اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے ایک اور میزائل حملہ کیا گیا ہے، جو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کیے گئے کئی حملوں میں تازہ ترین ہے۔ اس حملے کے بعد پورے اسرائیل، بشمول تل ابیب، میں خطرے کے سائرن بج اٹھے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی میزائلوں کی تازہ ترین بارش نے ملک بھر میں فضائی حملے کی وارننگز کو فعال کر دیا ہے جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے 20 میزائل داغے ہیں جبکہ شہریوں کو بنکرز میں جانے کی ہدایت کی گئی۔
ایرانی خبر رساں ایجنسیوں میں شائع ہونے والے ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے کہا کہ ان کے طاقتور اور متحرک “فتح میزائلوں” نے اسرائیلی میزائل دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جو ایران کی قوت اور برتری کا واضح پیغام ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم مقبوضہ علاقوں کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں اور وہاں کے رہائشی ایرانی حملوں کے سامنے مکمل طور پر غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلانیہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ “صہیونی دہشت گرد ریاست پر رحم کا وقت ختم ہوچکا” اور “سخت جواب دینا ناگزیر ہے”۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ (سابق ٹوئٹر) پر دو اہم پیغامات میں کہا: “جنگ کا آغاز ہوچکا ہے”
“صہیونی ریاست پر رحم نہیں کیا جائے گا”۔
ایک پوسٹ میں ایک شخص کی تصویر بھی شامل تھی جو تلوار لیے قلعے کے دروازے میں داخل ہو رہا ہے، جسے بعض مبصرین نے خیبر کے قلعے کی فتح سے تعبیر کیا ہے، جو اس بیان کو مذہبی اور تاریخی شدت دے رہا ہے۔