اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے، ایرانی ملٹری چیف اور پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت کئی اہم شخصیات شہید

جمعہ کی صبح اسرائیل نے ایران پر ایک بڑے اور غیر معمولی فضائی حملے کا آغاز کیا، جسے اسرائیلی حکام نے ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کا نام دیا ہے۔ اس کارروائی میں اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں طیاروں نے ایران کے ایٹمی اور فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، جن میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات اور بیلسٹک میزائلوں سے متعلق مراکز شامل تھے۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق حملے کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے سپریم کمانڈر جنرل حسین سلامی اور میجر جنرل محمد باقری سمیت کئی اعلیٰ فوجی اور ایٹمی سائنسدان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایران بھر میں مختلف مقامات پر زوردار دھماکوں اور آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئیں، جبکہ متعدد شہروں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کارروائی کو “اسرائیل کے وجود کی بقا کے لیے ایک تاریخی اور فیصلہ کن اقدام” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آپریشن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایران کی جانب سے لاحق خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا۔

دوسری جانب، ایران نے اسرائیلی حملے کے ردعمل میں “فیصلہ کن جوابی کارروائی” کی دھمکی دی ہے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملوں کی مکمل صلاحیت موجود ہے، اور اس حملے کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا۔

عالمی سطح پر اس حملے کے اثرات فوری طور پر محسوس کیے گئے۔ خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جبکہ امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے اس حملے میں براہِ راست کسی مداخلت سے انکار کیا ہے، تاہم صورتحال پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ایران کے اہم ہوائی اڈوں پر تمام پروازیں معطل کر دی گئی ہیں اور ریاستی نشریاتی ادارے نے اپنے لوگو پر سیاہ پٹی لگا دی ہے، جو ہنگامی حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیل نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قریبی شیلٹرز کے قریب رہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اور خطرناک مرحلے کا آغاز ہو سکتی ہے، جس میں بڑے پیمانے پر فوجی تصادم کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

اسرائیلی حملے میں کون کون سی اہم ایرانی شخصیات شہید ہوئیں

جمعہ کی علی الصبح ایران کے دارالحکومت تہران اور دیگر صوبوں پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے وسیع پیمانے پر فضائی حملوں میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی شہید ہو گئے ہیں۔اس کے علاوہ ایرانی نلٹری چیف میجر جنرل محمد باقر بھی اس حملے میں کام آئے ہیں۔
اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے کئی دیگر سینئر کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدان بھی شہید ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری عدم پھیلاؤ کی خلاف ورزی پر ایران کیخلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قرارداد منظوران حملوں نے تہران سمیت ایران کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے IRIB نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایرانی مسلح افواج کے مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل غلام علی رشید بھی ان حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران کے سینئر اور تجربہ کار ایٹمی سائنسدانوں محمد مهدی تہرانچی اور فریدون عباسی کے بھی مختلف حملوں میں شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔

جنرل سلامی کون تھے؟
اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے میجر جنرل حسین سلامی، ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈرتھے۔ وہ ایران کے طاقتور ترین فوجی اور سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور انہیں ایران کے دفاع، خارجہ پالیسی، اور خطے میں عسکری حکمت عملی کی تشکیل میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

پیدائش و ابتدائی تعلیم:
جنرل حسین سلامی 1960ء میں ایران کے صوبہ ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ایران-عراق جنگ (1980–1988) کے دوران انہوں نے ایرانی افواج میں شمولیت اختیار کی اور میدانِ جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔

تعلیم:
انہوں نے ایران کی ایرو اسپیس یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں IRGC کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بنے۔ ان کے پاس فوجی اسٹریٹیجی، ایوی ایشن، اور میزائل ٹیکنالوجی میں خاص تجربہ تھا۔

عسکری ترقی اور عہدے:
حسین سلامی 1990 کی دہائی میں IRGC کے اعلیٰ کمانڈ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے IRGC کی ایرو اسپیس فورس کی کمان سنبھالی، جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی نگرانی کرتی ہے۔
2009 میں انہیں پاسداران انقلاب کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا، اور اپریل 2019 میں انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کا سربراہ مقرر کیا۔

نظریاتی وابستگی:
سلامی ایک سخت گیر نظریاتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے خلاف ایران کی مزاحمتی حکمت عملی کے حامی تھے۔
ان کا ماننا تھا کہ ایران کو ایک ’خود کفیل مزاحمتی طاقت‘ کے طور پر ابھرنا چاہیے، جس کے لیے انہوں نے عسکری طاقت کو مرکزیت دی۔

بین الاقوامی کردار:
جنرل سلامی نے شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے عسکری اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو ’محورِ مزاحمت‘ (Axis of Resistance) کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم تھے۔

امریکی پابندیاں:
2020 میں امریکہ نے انہیں باقاعدہ طور پر سینکشنز (پابندیوں) کی فہرست میں شامل کیا، جس کی وجہ خطے میں ایران کی بڑھتی عسکری سرگرمیاں اور داخلی مظاہروں کے خلاف سخت اقدامات تھے۔

شہادت کا پس منظر:
جنرل حسین سلامی جمعہ، 13 جون 2025 کو اسرائیل کے تہران پر کیے گئے ایک بڑے فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کو ایران میں نہ صرف عسکری نقصان بلکہ ایک ’علامتی قومی سانحہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

ایران کیخلاف اسرائیلی حملوں کے بعد عراق کا فضائی حدود بند کرنے کا اعلان
عراق نے جمعہ کے روز اپنی فضائی حدود بند کرتے ہوئے ملک بھر میں فضائی آمدورفت معطل کر دی ہے، یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری اور عسکری مقامات پر حملوں کے بعد کیا گیا۔

سرکاری خبر رساں ادارے عراقی نیوز ایجنسی کے مطابق وزارتِ ٹرانسپورٹ نے عراقی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر فضائی آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔

عراقی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے تاکہ عوامی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

عراق کی فضائی حدود خطے میں اہم فضائی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی بندش کے اثرات بین الاقوامی پروازوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

مقامات سے دھویں کے بادل بھی اٹھتے دیکھے گئے۔

تہران پر حملے کے بعد ایران کا سخت ردعمل: ’قیمت چکانا پڑے گی’
ایران نے آج علی الصبح اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو سخت جوابی کارروائی کی وارننگ دی ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن ابراہیم رضائی نے کہا ہے کہ تل ابیب کی حالیہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

رضائی نے مزید کہا کہ ایران اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور صہیونی حکومت کو اپنے اقدام کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

یاد رہے کہ آج صبح اسرائیل نے تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں پر اچانک فضائی حملے کیے، جن میں رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق ان حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی افسران اور ایٹمی سائنسدان شہید ہوئے ہیں۔

ایران کی جانب سے ممکنہ بیلسٹک میزائل حملوں کے خدشے کے باعث اسرائیل میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے شہریوں کو بم شیلٹرز کے قریب رہنے کی ہدایت جاری کی ہے، جبکہ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اسکولز، تقریبات اور عوامی اجتماعات معطل کر دیے گئے ہیں۔

ایرانی قیادت نے واضح کیا ہے کہ یہ حملے ایران کی خودمختاری کے خلاف کھلی جارحیت ہیں، اور ان کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، اور آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔

ایران پر حملے سے چند گھنٹے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو کیا پیغام دیا تھا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اپنے اتحادی اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرے، کیونکہ تہران کے ساتھ معاہدہ قریب ہے بشرطیکہ ایران کچھ لچک دکھائے۔

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک مناسب معاہدے کے کافی قریب ہیں۔ صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو ایران پر حملے پر غور کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تصادم کا خدشہ ہے۔ یہی خدشات امریکی سفارتی عملے کی مشرق وسطیٰ سے واپسی کے فیصلے کا باعث بنے ہیں۔

جب اُن سے نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ (اسرائیل) حملہ کرے، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اس سے معاہدہ سبوتاژ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے فوری طور پر یہ بھی کہا کہ ممکن ہے اس سے معاہدے کو فائدہ بھی ہو، لیکن نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف اتوار کو عمان میں ایران کے ساتھ چھٹے دور کی بات چیت کرنے والے ہیں۔ ایران نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافہ کرے گا، جو مذاکرات میں سب سے بڑا تنازع ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر خود کو امن پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ تنازع سے بچنا چاہتے ہیں، اور ترجیح ایک باوقار سفارتی معاہدے کو دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس تنازع سے بچنا پسند کروں گا۔ ایران کو تھوڑا سخت رویہ اپنانا ہوگا یعنی ہمیں کچھ ایسی چیزیں دینا ہوں گی جو وہ اس وقت دینے کو تیار نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ حملہ فوری ہے، لیکن یہ کچھ ایسا ہے جو ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے۔

میجر جنرل محمد باقری کون تھے؟
پیدائش اور ابتدائی زندگی:
محمد حسین باقری 1960ء کے قریب ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔ وہ ایرانی انقلاب (1979) کے بعد نوجوانی میں ہی پاسداران انقلاب میں شامل ہو گئے اور ایران-عراق جنگ (1980-1988) کے دوران کئی اہم محاذوں پر سرگرم رہے۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ پس منظر:
باقری نے ملٹری اسٹریٹیجک اسٹڈیز اور سائنس اینڈ سیکیورٹی کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

وہ ایران کی اعلیٰ عسکری درسگاہوں سے وابستہ بھی رہے اور نئی فوجی قیادت کی تربیت میں سرگرم کردار ادا کیا۔

عہدہ اور ذمہ داریاں:
2016 میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں آرمی چیف آف اسٹاف مقرر کیا۔

اس عہدے پر وہ ایرانی فوج (ارتش)، پاسداران انقلاب (IRGC)، اور بسیج فورسز کے مابین ہم آہنگی، دفاعی پالیسی، اور جنگی منصوبہ بندی کے نگران بنے۔
انہوں نے ایران کی دفاعی خودکفالت کی پالیسی کو وسعت دی اور علاقائی دفاعی اتحادوں میں کردار بڑھایا۔

نظریاتی اور اسٹریٹیجک مؤقف:
جنرل باقری ایران کے سخت گیر عسکری حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے خلاف مزاحمتی نظریہ کے کھلے حامی تھے۔
انہوں نے ایرانی دفاع کو ایسی حالت میں رکھا کہ دشمن کسی بھی حملے کی صورت میں سخت ترین جواب سے دوچار ہو۔

علاقائی کردار:
جنرل باقری نے شام، عراق، لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف فوجی اور سفارتی منصوبوں کی نگرانی کی۔

وہ خطے میں ایران کے اسٹریٹیجک اتحادیوں جیسے حزب اللہ اور الحشد الشعبی سے بھی براہِ راست رابطے رکھتے تھے۔

13 جون 2025 کو اسرائیل کے ایران پر بڑے حملے کے بعد افواہیں پھیلیں کہ جنرل باقری مارے گئے ہیں۔ تاہم پہلے ایرانی سرکاری میڈیا نے اس کی تردید کی، مگر بعد میں ان کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔ا

’ایران کا جوابی حملہ انتہائی منظم اور فیصلہ کن ہو گا‘
ایرانی فوج کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کو اس کے حالیہ حملوں کے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور اسے ’بھاری قیمت‘ ادا کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جواب صرف اسرائیل ہی نہیں، بلکہ اس کا بنیادی حلیف امریکا بھی دے گا۔

انہوں نے مزید بیان کیا کہ آج صبح اسرائیل نے ایران کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جن میں مذہبی اور سکیورٹی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملے تہران کے رہائشی علاقوں میں دھماکوں کے ساتھ جاری رہے، لیکن ان کے مطابق ان کا جوابی حملہ انتہائی منظم اور فیصلہ کن ہو گا۔

خطے میں اس تازہ کشیدگی نے عالمی امن کو درپیش خطرات کو بڑھا دیا ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک اور یورپی طاقتوں نے اس صورتحال پر سنجیدہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آئی اے ای اے اور اقوامِ متحدہ کے حکام نے فریقین سے تحمل اور تبادلۂ خیال سے تنازعے کو حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

یاد رہے کہ آج13 جون 2025 کی صبح اسرائیل نے ایران میں ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کے تحت بڑے فضائی حملوں کا آغاز کیا، جس میں ایران کے ایٹمی تنصیبات (جیسے نطنز)، بیلسٹک میزائل فیکٹریاں، اور اعلیٰ کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا ۔

حملے کے دوران سینئر فوجی اور ایٹمی سائنسدان ہلاک ہوئے، جبکہ تہران اور دیگر شہروں میں رہائشی عمارتیں بھی تباہ ہوئیں ۔ ایران نے انہیں خودکش حملوں کے طور پر قرار دے کر اعلان کیا کہ تل ابیب اور اس کے حلیفوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں