غزہ اور کشمیر- مظلومیت کی داستانیں اور عالمی قیادت کی مجرمانہ خاموشی تحریر:۔ روبینہ کیانی

غزہ اور کشمیر: مظلومیت کی داستانیں اور عالمی قیادت کی مجرمانہ خاموشی

غزہ اور کشمیر دنیا کے دو ایسے خطے ہیں جہاں ظلم، ناانصافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دہائیوں سے جاری ہیں۔ ان علاقوں کے مظلوم عوام آج بھی انصاف، آزادی اور خودمختاری کے خواب آنکھوں میں سجائے جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عالمی ضمیر بدستور خاموش ہے اور مسلم قیادت محض بیانات اور رسمی احتجاج تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

غزہ، جو فلسطینی سرزمین کا اہم حصہ ہے، برسوں سے اسرائیلی فوجی جارحیت کا شکار ہے۔ آئے روز بمباری، پابندیاں، اور بے گناہوں کی شہادتیں اس خطے کا معمول بن چکی ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم ہو چکے، معیشت تباہ ہو چکی اور تعلیمی ادارے کھنڈر بن چکے ہیں۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں محض اعداد و شمار پیش کرتی ہیں، عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

کشمیر کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہ خطہ، جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ تسلیم کیا جا چکا ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی تسلط کا شکار ہے۔ کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان کی آواز کو دبانے کے لیے کرفیو، میڈیا بلیک آؤٹ، جبری گمشدگیاں اور بے گناہوں کی گرفتاریاں معمول بن چکی ہیں۔

سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا ان سنگین انسانی سانحات پر صرف اظہارِ تشویش اور مذمت تک محدود ہے۔ OIC جیسے عالمی اسلامی ادارے اپنی حیثیت اور کردار کھو چکے ہیں۔ نہ کوئی عملی قدم، نہ سفارتی دباؤ، نہ معاشی بائیکاٹ — فقط قراردادیں اور بیانات۔ گویا مظلوموں کی حمایت صرف تقریروں تک محدود کر دی گئی ہے۔

آج وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک خوابِ غفلت سے جاگیں اور اپنے وسائل، سفارت کاری اور اتحاد کے ذریعے ان مظلوم اقوام کے لیے مضبوط اور واضح موقف اختیار کریں۔ یہ نہ صرف دینی اور اخلاقی فریضہ ہے بلکہ انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔

اگر غزہ اور کشمیر جیسے مظلوم خطوں کے لیے آواز بلند نہ کی گئی تو تاریخ نہ صرف ظالموں کو یاد رکھے گی، بلکہ خاموش تماشائیوں کو بھی مجرم گردانے گی۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں یا وقت کے فرعونوں کے ساتھ

“یاد رکھیے، ظلم کے خلاف خاموشی صرف کمزوری نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہے — اور تاریخ خاموش رہنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔”

تحریر:۔ روبینہ کیانی

اپنا تبصرہ بھیجیں