ترک جنگی جہاز کراچی پہنچ گیا

جنوبی ایشیا اس وقت کھلے تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے، اور ایسے میں ترکی کا جدید جنگی بحری جہاز ”ٹی سی جی بیوک آدا“ (TCG Büyükada) 4 مئی سے 7 مئی تک کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کی علامت ہے بلکہ بھارت کے لیے ایک نئی سفارتی اور عسکری پریشانی کا اشارہ بھی ہے۔

پہلگام حملے کے بعد جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، بھارت نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ لیکن اب ترکی کا پاکستان کے ساتھ کھل کر دفاعی یکجہتی کا اظہار بھارت کے لیے ناقابل برداشت بنتا جا رہا ہے۔

ترکی کا یہ جدید اسٹیلتھ جنگی جہاز — جو کہ آبدوز شکن اور ساحلی گشت کے مشن کے لیے تیار کیا گیا ہے — پاکستان اور ترکی کے اس عسکری اتحاد کی واضح علامت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہا ہے۔ بھارتی دفاعی حلقوں میں اس آمد کو پاکستان کے ساتھ ممکنہ عسکری تعاون کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر کسی بھی ممکنہ جھڑپ کی صورت میں۔

ترکی کے وزارتِ دفاع کے ایڈوائزر ایڈمرل زکی آکتُرک نے تصدیق کی ہے کہ یہ جہاز دراصل لنگکاوی انٹرنیشنل میری ٹائم اینڈ ایرو اسپیس ایگزیبیشن (LIMA 2025) میں شرکت کے لیے روانہ ہے، تاہم اس کی بندرگاہی قیام کی منازل میں اومان اور پاکستان شامل ہیں۔

مزید برآں، چند دن قبل ترکی کا ایک C-130E ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ کراچی اترا، جس پر بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیا کہ یہ مبینہ طور پر خفیہ اسلحہ لے کر آیا تھا۔ بھارتی سوشل میڈیا اور دفاعی حلقے اس واقعے کو لے کر شور مچاتے رہے، جبکہ ترکی نے واضح کیا کہ طیارے کی آمد صرف فیولنگ کے لیے تھی اور باقی خبریں سراسر قیاس آرائیاں ہیں۔

تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کا دفاعی تعاون اب محض باتوں تک محدود نہیں رہا۔ ترکی نے پاکستان کو جدید ”Bayraktar TB2“ ڈرون فراہم کیے ہیں جو پہلے ہی پاک فضائیہ کے اڈوں پر متحرک ہو چکے ہیں۔ ان ڈرونز کو پاکستان کے مقامی BARQ لیزر گائیڈڈ میزائلز اور ترکی کے MAM-L اسمارٹ ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے، جو بھارت کے لیے کسی بھی محاذ پر ایک واضح پیغام ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ترکی سے 1.5 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت ملجیم کلاس جدید کورویٹ جنگی جہاز حاصل کر رہا ہے، جن میں سے دو ترکی اور دو کراچی شپ یارڈ میں تیار ہو رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی بحری صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ مقامی صنعت کو بھی تقویت ملے گی۔

مزید یہ کہ دونوں ممالک مل کر پانچویں نسل کے اسٹیلتھ فائٹر طیارے ”TAI TF Kaan“ پر بھی کام کر رہے ہیں، جس میں ترکی نے پاکستان میں مقامی پروڈکشن لائن قائم کرنے کی پیش کش کی ہے۔

ترکی کے ان اقدامات سے بھارت سخت پریشان ہے، خصوصاً اس وقت جب ترکی نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے فورمز پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔ اب جب کہ ترک جنگی جہاز پاکستانی ساحلوں پر لنگر انداز ہونے جا رہا ہے، بھارت کی خود ساختہ ”علاقائی بالادستی“ کا دعویٰ زمین بوس ہوتا نظر آ رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ترکی اور پاکستان کا یہ بڑھتا ہوا فوجی اتحاد بھارت کے لیے ایک نیا سٹریٹجک چیلنج ہے، خاص طور پر جب چین بھی اس اتحاد کی غیرعلانیہ حمایت کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا اب نہ صرف علاقائی طاقتوں بلکہ نیٹو، چین اور اسلامی دنیا کے نئے اسٹریٹجک محور کا میدان بنتا جا رہا ہے اور پاکستان اس میں ایک مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں