ٹائٹینک حادثہ: آخری لمحات میں کیا ہوا تھا، اصل صورتحال کا سراغ لگ گیا

ٹائٹینک کی ایک مکمل ڈیجیٹل اسکیننگ کے ذریعے اس عظیم الشان بحری جہاز کی تباہی اور حادثے کے آخری مراحل کی ساری تفصیل سامنے آگئی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سنہ 1912 میں ایک آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد جہاز کے ڈوبتے ہی اس کے 2 ٹکڑے ہوگئے تھے۔ اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار مسافر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اسکین بوائلر روم کا ایک نیا منظر پیش کرتا ہے جو عینی شاہدین کے بیانات کی تصدیق کرتا ہے کہ انجینئرز نے جہاز کی لائٹس آن رکھنے کے لیے آخر تک جدوجہد کی۔

اور ایک کمپیوٹر سمولیشن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جہاز میں کاغذ کے A4 ٹکڑوں کے سائز کے پنکچر اس کے ڈوبنے کا سبب بنے۔

ٹائٹینک کے تجزیہ کار پارکس اسٹیفنسن نے کہا کہ ٹائٹینک تباہی کا خود عینی شاہد ہے اور اس کے پاس اب بھی بہت سی کہانیاں سنانے کو باقی ہیں۔

اس اسکین کا مطالعہ نیشنل جیوگرافک اور اٹلانٹک پروڈکشنز کی طرف سے ایک نئی دستاویزی فلم کے لیے کیا گیا ہے جسے ’ٹائٹینک: دی ڈیجیٹل ریسریکشن‘ کہا جاتا ہے۔
جہاز کا ملبہ بحر اوقیانوس کے برفیلے پانیوں میں 3،800 میٹر نیچے پڑا ہے۔ پانی کے اندر روبوٹ کے ذریعے اس کا نقشہ بنایا گیا ہے۔

ہر زاویے سے لی گئی 700،000 سے زیادہ تصاویر کو ’ڈیجیٹل ٹوئن‘ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

چونکہ ملبہ بہت بڑا ہے اور گہرائی کے اندھیرے میں پڑا ہے اس لیے اسے آبدوزوں سے تلاش کرنا محض دلکش تصویریں دکھاتا ہے۔ تاہم ڈیجیٹل اسکیننگ ٹائٹینک کا پہلا مکمل نظارہ فراہم کرتی ہے۔

یہ عظیم الشان جہاز سمندر کی تہہ میں سیدھا پڑا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیکن 600 میٹر دور گہرایوں میں یہ ایک دھات کے ڈھیر کی مانند ہے کیوں کہ یہ 2 ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد سمندر کے فرش سے ٹکرایا تھا۔

نقشہ سازی کی نئی ٹیکنالوجی جہاز کا مطالعہ کرنے کا ایک مختلف طریقہ فراہم کر رہی ہے۔

پارکس اسٹیفنسن کا کہنا ہے کہ یہ ایک کرائم سین کی طرح ہے جہاں آپ کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ثبوت کیا ہیں اور کہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مکمل طور پر ملبے والے مقام کا ایک جامع نظریہ رکھنا یہ سمجھنے کی کلید ہے کہ یہاں کیا ہوا تھا۔

اسکین نئی قریبی تفصیلات دکھاتا ہے جس میں ایک پورٹ ہول (جہاز کی چھوٹی سی گول کھڑکی) بھی شامل ہے جسے غالباً آئس برگ نے توڑ دیا تھا۔ یہ زندہ بچ جانے والوں کی عینی شاہدین کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تصادم کے دوران کچھ لوگوں کے کیبن میں برف گھس گئی تھی۔

ماہرین ٹائٹینک کے ایک بڑے بوائلر روم کی اسٹڈی کی۔ اسکین پر اسے دیکھنا آسان ہے کیونکہ یہ بو سیکشن کے عقب میں اس مقام پر ہے جہاں جہاز 2 حصوں میں ٹوٹ گیا تھا۔

مسافروں کا کہنا تھا کہ لائٹس اس وقت بھی جل رہی تھیں جب جہاز لہروں کے نیچے ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔

ڈیجیٹل ریپلیکا سے پتا چلتا ہے کہ کچھ بوائلر کمان نما ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس وقت بھی کام کر رہے ہوں گے جب وہ پانی سے بالکل گھر چکے تھے۔

عرشے پر ایک والو بھی دریافت ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھاپ اس وقت بھی بجلی پیدا کرنے والے نظام میں گردش کر رہی تھی۔

یہ جوزف بیل کی قیادت میں انجینئرز کی ٹیم کی ہمت ہوگی جو جہاز کو روشن رکھنے کے لیے بھٹیوں میں کوئلہ ڈالنے کے لیے وہاں جمے رہے تھے۔

پارکس اسٹیفنسن نے کہا کہ تباہی میں وہ سب ہی مر گئے تھے لیکن ان کے بہادرانہ اقدام نے بہت سی جانیں بچالی تھیں۔

اس ٹیم نے روشنی اور بجلی کو آخری وقت تک کام کرنے کی پوزیشن میں رکھا تھا تاکہ عملے کو مکمل اندھیرے میں رہنے کی بجائے کچھ روشنی کے ساتھ لائف بوٹس کو محفوظ طریقے سے لانچ کرنے کا موقع مل سکے۔

اس بہادر ٹیم نے اپنی جانوں کی قربانی تو دے لیکن آخری سانس تک جہاز کے مسافروں و عملے کو افراتفری سے بچائے رکھا اور بچ نکلنے کا موقع دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں