ٹیلی کام کمپنیوں نے فون سم بلاک کرنے کے منفی اثرات سے خبردار کردیا

ٹیلی کام آپریٹرز وزارت آئی ٹی کی جانب سے قسطوں پر اسمارٹ فونز کی فراہمی کے اقدام پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے پاکستان کے ڈیجیٹل منظرنامے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 4 میں سے 2 موبائل آپریٹرز نے پالیسی کی ایک اہم شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے تحت نادہندگان کو رجسٹرڈ تمام سمز کو بلاک کرنا لازمی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف شہریوں کو ان کے ڈیجیٹل حقوق سے محروم کیا جائے گا بلکہ ملک میں ڈیجیٹل شمولیت پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

ٹیلی کام کمپنیوں کا اصرار ہے کہ دوسرے ممالک میں ٹیلی کام آپریٹرز نہیں بلکہ حکومتیں ڈیفالٹ کا مالی بوجھ برداشت کرتی ہیں اور وہ ممکنہ نقصانات کو پورا کرنے کے لیے کسی قابل عمل میکانزم کے بغیر خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

فی الحال یہ پالیسی زیر بحث ہے کیونکہ وزارت آئی ٹی نے ٹیلی کام آپریٹرز کو اتفاق رائے تک پہنچنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

وزارت نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی ہے اور اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ شیئر کیا ہے لیکن بنیادی نکات نادہندگان کے لیے مجوزہ سم بلاکنگ انفورسمنٹ میکانزم ہیں اور ٹیلی کام آپریٹرز کو مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔

کچھ آپریٹرز اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں جبکہ دیگر ایک مرکزی نظام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو نادہندگان کے شناختی کارڈ سے منسلک تمام سموں کو معطل کرنے کا سبب بنے گا۔

مزید برآں ٹیلی کام آپریٹرز نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں ڈیفالٹ رسک یا سبسڈی کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے ذمے دار نہیں ہونا چاہیے۔

اس اقدام کا مسودہ پہلی بار نومبر 2023 میں تیار کیا گیا تھا اور 2024 کے اوائل میں کابینہ کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تاہم کابینہ نے اسے وزارت آئی ٹی کو واپس بھیج دیا اور ہدایت کی کہ اس پالیسی کا قانون ڈویژن سے جائزہ لیا جائے۔

عام انتخابات کے بعد نظر ثانی شدہ ورژن نئے آئی ٹی وزیر شزا فاطمہ کو پیش کیا گیا جنہوں نے بینکوں، فن ٹیک فرموں اور ٹیلی کام آپریٹرز کی رائے کے ساتھ ایک تازہ ترین مسودہ تیار کیا۔

پالیسی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے باوجود سی ایم اوز کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ آپریٹرز کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر پالیسی حتمی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام کے مطابق اصل چیلنج قسط پر مبنی اسمارٹ فون کی فراہمی نہیں بلکہ نادہندگان کے خلاف نفاذ کا طریقہ کار ہے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) وفاقی حکومت کی جانب سے واضح پالیسی ہدایات جاری ہونے کے بعد ہی اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔

اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے ٹیلی کام آپریٹرز نے متبادل حل تجویز کیے ہیں جن میں خطرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ شرح سود یا پیشگی ادائیگی کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔

تاہم حکومت اس بات سے مطمئن نہیں ہے اور یہ دلیل دیتی ہے کہ اعلیٰ شرح سود کے ساتھ قسط پر مبنی اسمارٹ فون کی خریداری پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں