گجرات کا ’ڈنگہ خورد‘ جہاں قتل پر افسوس نہیں بدلے کی تیاری ہوتی ہے

زمین کے اس ٹکڑے پر پہلا تنازع 1986 میں ہوا جب ہم بہت چھوٹے تھے۔ وقتی طور پر تنازع تھم گیا لیکن وقتاً فوقتاً اس پر خاندان میں بحث و تکرار ضرور ہوتی ہے لیکن دوسری برادری کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے خاندان کے اندر لڑائی مول لینا مناسب نہیں تھا اس لیے معاملہ ٹلتا رہا۔ 2004 میں دوسرے خاندان سے صلح ہوئی تو نہ صرف گاؤں والوں نے بلکہ اہل خانہ نے سکھ کا سانس لیا۔ کیونہ یہ لڑائی بھی تیسری نسل تک پہنچ چکی تھی اور مجموعی طور پر دو درجن افراد جان کی بازی ہار چکے تھے۔‘
یہ کہنا ہے کئی دہائیوں سے دشمنی کا شکار ضلع گجرات کے گاؤں ڈنگہ خورد کے رہائشی اور گذشتہ روز قتل ہونے والے چھ افراد کے قریبی رشتہ دار منور حسین کا، جن کا خاندان نسل در نسل دشمنیوں کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے اور اب خاندان کے اندر ہی دشمنی نے پورے خاندان کی زندگیاں غیر محفوظ کر دی ہیں۔

منور حسین کے مطابق ’آخری سات اسی کی دہائی سے لے کر 2004 کے دوران قتل ہوئے تھے۔ لیکن اب خاندان کے اندر ہی گذشتہ چھ ماہ میں 10 افراد قتل ہو چکے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پنجاب کے اکثر علاقوں میں دشمنیاں جب شروع ہو جاتی ہیں تو وہ کئی نسلوں تک چلتی رہتی ہیں، یہاں تک بعد میں آنے والی نسلوں کو اول تو تنازع کی وجہ معلوم ہی نہیں ہوتی، یا پھر وہ اسے بے وقوفی گردانتے ہیں جس کی وجہ سے درجنوں جانیں ضائع ہو چکی ہوتی ہیں۔
دو مارچ کو جب لوگ پہلے روزے کی تیاریوں میں مشغول تھے، اس وقت ڈنگہ خورد آنے والے ویگو ڈالے میں سوار چھ افراد کو گھات لگائے مسلح افراد نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے قتل کر دیا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مسلح ہونے کے باوجود ڈالے میں سوار افراد کو سنبھلنے کا بھی موقع نہیں ملا۔
تھانہ صدر ڈنگہ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق مدعی محمد راسب ولد حاکم علی نے بیان دیا کہ اس کا بھائی رخسار احمد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آ رہا تھا، تو پہلے سے گھات لگائے مسلح افراد نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔
فائرنگ کے نتیجے میں زاہد ناظم، مبشر ولد محمد شفیع، ضمیر ولد محمد حنیف، ولی محمد ولد ہدایت خاں، رخسار احمد اور جاوید اقبال موقع پر ہلاک ہو گئے۔
پولیس کے مطابق، ملزمان کلاشنکوف اور دیگر آتشیں اسلحے سے لیس تھے۔ حملہ آوروں نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی، حملے کے دوران ایک حملہ آور ظہور عرف جوری بھی اپنی ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہوگیا، جسے ملزمان اپنے ساتھ لے کر فرار ہوگئے۔
معلوم ہوا ہے کہ یہ زخمی حملہ آور بھی بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ خاندانی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ یہ دشمنی کچھ عرصہ قبل چچا زاد بھائیوں کے درمیان خاندانی زمین کے تقسیم کے تنازع پر شروع ہوئی۔ اس دوران اختر علی کے بیٹے خضر حیات کو اس کے چچا زاد بھائیوں نے کلہاڑیوں کے وار کرکے زخمی کر دیا تھا۔ جس کے بدلے میں اب تک 9 افراد قتل ہو چکے ہیں، جن کا الزام لواحقین نے اختر علی اور ان کے بیٹے اور قریبی عزیزوں پر لگایا گیا ہے۔ مرنے والوں میں تین سگے بھائیوں سمیت کچھ کزن اور ایک ملازم بھی شامل ہیں۔
پہلا قتل ستمبر میں کھاریاں ڈنگہ روڈ پر ہوا، جس میں ایک بھائی آصف ولد حاکم علی قتل ہوا جبکہ دوسرا بھائی راسب زخمی ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد دوسرا حملہ ہوا، جس میں گاؤں کے باہر دوسرے بھائی افضال ولد حاکم علی اور کزن افضل حسین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تیسرا حملہ اتوار کو ہوا، جو مجموعی طور پر سات لوگوں کی ہلاکت باعث بنا۔ رخسار ولد حاکم علی سمیت اس کے پانچ ساتھی جبکہ ایک حملہ آوور ہلاک ہوا ہے۔
محل وقوع کے اعتباد سے دیکھیں تو ڈنگہ خورد نہر اپر جہلم کے شمال کی جانب گاؤں رندھیر سے ملحق 70، 80 گھرانوں پر مشتمل چھوٹا سا گاؤں جس میں 20،25 مکان اس وجہ سے خالی پڑے ہیں کہ حالات سے تنگ آکر لوگ اپنے بچوں کے مستقبل اور جانیں بچانے کے لیے قریبی شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ گاؤں کی تاریخی حیثیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہاں پر خاندانی دشمنیاں اس کی اپنی تاریخ جتنی ہی پرانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کے باسیوں کی دیگر دیہات میں رشتہ داریاں بھی انتہائی محدود ہیں۔
80کی دہائی کی بات ہے جب اس گاؤں کے لوگ پچھلی دو نسلوں کی لڑائی اور خاندانی دشمنی میں مارے گئے، یہ 15 افراد کے قتل کو کو بھول کر آگے بڑھ رہے تھے کہ عید کے دن دو برادریوں جن میں ایک مہر برادری جبکہ دوسری بابے رحمے کی فیملی تھی میں اونچی آواز میں گانا لگانے پر جھگڑا ہوا۔

مہر برادری کے محمد صادق نے چھت سے اینٹ ماری جو محمد اسماعیل کے سر پر لگی اور وہ جان کی بازی ہار گیا۔ یوں پچھلی دو نسلوں کی لڑائی ایک بار پھر زندہ ہوگئی۔ لوگ جیل چلے گئے اور بظاہر امن و امان دکھائی دینے لگا کچھ عرصے بعد صلح بھی ہوگئی، لیکن 1998 میں بابے رحمے کی اولاد میں سے ایک نے محمد صادق کو قتل کر دیا۔
یوں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا اور محض چھ سال کے عرصے میں سات لوگ ہلاک جبکہ ایک زخمی بھی ہوا۔
منور حسین اسی مقتول اسماعیل کے بیٹے ہیں، اس وقت کی دشمنی کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’عام طور پر دشمنیوں کی وجہ زن، زر اور زمین ہوتی ہیں لیکن ہماری دشمنی کی وجہ دو خاندانوں کی باہمی نفرت، ایک دوسرے پر دھاک بٹھانے کی بیوقوفانہ کوشش اور ماضی میں ان بزرگوں کی دشمنی تھی جس کے بارے میں ہماری موجودہ نسل جانتی بھی نہیں۔‘
1980 سے 2004 کے دوران اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ افسردہ لہجے میں کہتے ہیں کہ ’ہم تو اسے زندگی بھی نہیں کہہ سکتے۔ پٹری سے اترے ہوئے لوگ تھے جن کو دشمنی نے غربت میں دھکیل دیا تھا۔ خوشی تو کبھی چھو کر نہیں گزری تھی۔ ایک ایمان ہوتا ہے وہ بھی نہیں بچا تھا کیونکہ ہم درندگی کے راستے پر تھے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ اس دشمنی میں ہمارے ساتھ تھے ان کی زندگیاں بھی ہماری طرح ہی جہنم بنی ہوئی تھی اور جو مخالف تھے ان کے حالات بھی ہمارے جیسے ہی تھے۔ 2004 میں جب علاقے کے بزرگوں کی کوشش سے صلح ہوئی تو دونوں فریقین نے شکرانے کے نوافل پڑھے۔ تب سے اب تک ہم دونوں برادریوں نے تو ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھا لیکن اب ہمارے اپنے خاندان میں جو نہ صرف چچا زاد ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی بیٹیوں کے رشتے بھی ان کے ہاں ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے ہی پیاسے ہو گئے ہیں۔ جو ہم سب کے لیے افسوس ناک ہے۔‘

مقامی لوگوں کے مطابق اس دوران جب کسی ایک برادری کا بندہ قتل ہوتا ہے تو وہ باضابطہ سوگ کے بجائے اس کا بدلہ لینے کی منصوبہ بندی میں لگ جاتا ہے۔ کبھی کسی کے گھر یا کھیت میں گھس کر اور کبھی کسی کا راستہ روک کر قتل کر دیتے تھے۔ اسی دشمنی کی وجہ سے ان خاندانوں کے پڑھے لکھے نوجوان اپنی جانیں بچاتے پھرتے اور گاؤں چھوڑ کر مختلف شہروں میں رہنے لگے اور جب یورپ جانے کا رجحان ہوا تو وہ یورپ چلے گئے جن میں سے اکثر نے واپسی کا راستہ تک نہیں دیکھا۔
اس عرصے میں قتل کے بہت سے واقعات اس وقت کے لوگوں کے زبان زد عام تھے، لیکن حالیہ دشمنی کے مرکزی کردار اختر علی کے بھائی صفدر کے قتل کا واقعہ ان دنوں بہت مشہور ہوا تھا۔
گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ ’اختر علی کا بھائی صفدر علی دشمنی سے بچنے اور محنت مزدوری کرنے کے لیے کراچی چلا گیا اور وہاں جا کر کسی مِل میں کام کرنے لگا۔ مہر برادری کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنے ایک نوجوان کو اس کے پیچھے بھیجا جس نے وہاں جا کر ملازمت شروع کی اور صفدر علی کو ملا۔ اس نے اسے اعتماد میں لیا کہ دشمنی گاؤں میں ہے اور گاؤں والوں کی ہے ہم یہاں محنت مزدوری کرنے آئے ہیں۔ اس طرح دونوں نے صرف اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا بلکہ ایک ساتھ رہنے بھی لگے۔‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’پھر ایک دن سونی مہر نے صفدر علی کو سوتے میں دیکھا اور اس کو اپنے مرحوم ماموں کا قتل یاد آگیا جس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے صفدر علی کو سوتے میں قتل کر دیا۔‘
گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پرانی دشمنی کے مرکزی فریقین کا راضی نامہ اگرچہ برقرار ہے لیکن موجودہ دشمنی کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہر برادری کے کچھ لوگوں کا اتوار کو قتل ہونے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا اور اختر علی کے بیٹے پر ہونے والے حملے میں بھی ان کے کچھ لڑکوں پر الزام ہے کہ وہ معاونت کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اتوار کو قتل ہونے والوں میں ایک زاہد ناظم کا تعلق بھی مہر برادری سے ہے جو حملے کے وقت اس ڈالے میں موجود تھے۔
جس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ پرانی دشمنی ایک بار پھر سر اٹھا لے اور پھر سے کئی خاندان اس کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں