میانمار کے سرحدی علاقے میواڈی میں ہزاروں نوجوان سخت گرمی اور مچھروں سے بھرے کھلے حراستی مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں وہ اپنے ملک واپس جانے کے منتظر ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، میانمار کے مختلف اسکام سینٹرز سے 7,000 سے زائد افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے، جن میں 14 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ تاہم، ان افراد کی واپسی کے عمل میں تاخیر ہو رہی ہے، جس پر متاثرین شدید مایوس ہیں۔
ایک پاکستانی نوجوان، جو رمضان سے پہلے پاکستان واپس آنا چاہتا ہے، نے کہا، “ہم جانتے ہیں کہ اب ہم محفوظ ہیں، لیکن آٹھ دن گزر چکے ہیں، ہمیں ابھی تک تھائی لینڈ کیوں نہیں بھیجا جا رہا؟”
حراستی مرکز میں حالات انتہائی خراب ہیں، جہاں نہ تو صفائی کا مناسب انتظام ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات موجود ہیں۔ ایک 18 سالہ ملائیشین نوجوان نے بتایا کہ یہاں کے واش روم اور غسل خانے اتنے گندے ہیں کہ ان کا استعمال ناممکن ہو چکا ہے۔
چین سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی وانگ نے کہا، “مجھے خوشی ہے کہ میں آخر کار اس جہنم سے نکلنے والا ہوں… چین سب سے محفوظ جگہ ہے۔”
میانمار کے قانون سے آزاد سرحدی علاقوں میں یہ اسکام سینٹرز ایک منظم مجرمانہ صنعت کا حصہ ہیں، جہاں ہزاروں غیر ملکی ملازمین کو زبردستی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ ملازمین سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دے کر پیسہ لوٹنے کے مختلف ہتھکنڈے آزماتے ہیں، جن میں رومانوی اور سرمایہ کاری کے جعلی منصوبے شامل ہیں۔
چین کی سخت دباؤ کے بعد میانمار کی فوجی حکومت اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپس نے اسکام سینٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ تاہم، رہا کیے گئے افراد کی واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے وہ بےیقینی اور مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں