امریکا سے لے کر اٹلی، برطانیہ اور پاکستان تک، خواتین سیاستدان مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیک پورنوگرافی کا نشانہ بن رہی ہیں، ایک پریشان کن رجحان جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ خواتین کی سماجی زندگی خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔
ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ خصوصاً ’اے آئی‘ کی دُنیا میں ڈیپ فیکس کا اضافہ عالمی سطح پر سماجی زندگی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے جس سے ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنا انتہائی اہم ہو گیا ہے، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سستے ٹولز بشمول فوٹو ایپس خواتین کو ڈیجیٹل طور پر بے لباس کر رہی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ڈیپ فیکس کے ذریعے سماجی سطح پر خواتین کی ساکھ کو خراب کرنے، ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈالنے، عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور بلیک میلنگ یا ہراسانی کے حالات پیدا کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اکثر تصاویر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکا میں غلط معلومات پر تحقیق کرنے والے گروپ امریکن سن لائٹ پروجیکٹ نے 35 ہزار سےزیادہ ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے جن میں کانگریس کے 26 ارکان، جن میں 25 خواتین بھی شامل ہیں، کو فحش ویب سائٹس پر ڈیپ فیک مواد میں دکھایا گیا ہے۔
گروپ کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کانگریس میں ہر 6 میں سے ایک خاتون مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر میں بے آبرو ہو رہی ہے۔
اے ایس پی کی چیف ایگزیکٹیو نینا جانکووچ کا کہنا ہے کہ ’خواتین ممبران پارلیمنٹ کو مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیک پورنوگرافی کے ذریعے خطرناک حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اے ایس پی نے انٹرنیٹ پر تلاش کی کوششوں سے بچنے کے لیے تصاویر میں دکھائی گئی خاتون ممبران پارلیمنٹ کے نام جاری نہیں کیے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر ان خواتین کے دفاتر کو مطلع کر دیا گیا ہے۔
’ڈیپ فیک‘ کے خلاف آواز
برطانیہ میں نائب وزیر اعظم انجیلا رینر ان 30 سے زیادہ برطانوی خواتین سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں ڈیپ فیک پورن ویب سائٹ نے نشانہ بنایا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک درجن کے قریب سیاست دانوں کی تصاویر کو ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ کر کے دکھایا ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے پورنوگرافی کے ارد گرد پھیلتی ہوئی کاٹیج انڈسٹری کو جنم دیا ہے، جہاں صارفین تصاویر سے کپڑوں کو ڈیجیٹل طور پر ہٹانے یا جنسی ٹیکسٹ ٹو امیج اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے ڈیپ فیکس تیار کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دستیاب مصنوعی ذہانت کے ٹولز اور ایپس کا استعمال کر رہے ہیں۔
اٹلی میں وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ڈیپ فیک فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں امریکی فحش ویب سائٹس پر پوسٹ کرنے کے الزام میں 2 افراد سے ایک لاکھ یورو ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اطالوی خبر رساں ادارے کے مطابق میلونی نے گزشتہ سال ایک عدالت کو بتایا تھا کہ ’یہ خواتین کے خلاف ذہنی تشدد کی ایک شکل ہے‘۔ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی آمد کے ساتھ اگر ہم کسی عورت کا چہرہ کسی دوسری عورت کے جسم پر لگانے کی اجازت دیتے ہیں، تو ہماری بیٹیاں خود کو کن حالات میں پائیں گی، یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کے خلاف جنگ کو جائز سمجھتی ہیں۔
پاکستان میں متاثرہ خواتین
پاکستان میں اے ایف پی کے حقائق کی چھان بین کرنے والوں نے ایک ڈیپ فیک ویڈیو کی تردید کی ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ممبر اسمبلی مینا مجید کو ایک غیر متعلقہ مرد وزیر کو سرعام گلے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایک اور ویڈیو سے متعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جب انہیں آن لائن ایک ڈیپ فیک ویڈیو ملی جس میں ان کا چہرہ ایک بھارتی اداکار کے جسم پر لگایا گیا تھا تو وہ ’ٹوٹ پھوٹ‘ کا شکار ہو گئیں۔
غیر منافع بخش ٹیک پالیسی پریس نے گزشتہ سال متنبہ کیا تھا کہ ’سیاست میں خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز کے پھیلاؤ کا رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی سے متعلق قانون سازی کا فقدان
پاکستان میں پورنو گرافی اور جنسی مواد سےمتعلق ڈیپ فیک کے لیے قانون سازی کا فقدان ہے۔ برطانیہ کے قوانین ڈیپ فیک پورن کو شیئر کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں اور حکومت نے رواں سال اس طرح کی ویڈیو اور تصاویر پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اب تک کوئی حتمی ٹائم ٹیبل طے نہیں کیا گیا ہے۔
کیلیفورنیا اور فلوریڈا سمیت دیگر امریکی ریاستوں نے پورنو گرافی پر مشتمل ڈیپ فیکس کو قابل سزا جرم قرار دینے والے قوانین منظور کیے ہیں اور مہم چلانے والے کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس طرح کی ویڈیو اور تصاویر بنانے اور پھیلانے والوں کے خلاف سزا کا تعین کرنے کے لیے فوری طور پر بل منظور کرے۔
اگرچہ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ سمیت ہائی پروفائل سیاست دان اور مشہور شخصیات ڈیپ فیک پورن کا شکار رہی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کی نظروں میں نہ آنے والی دیگر خواتین بھی اس کا نشانہ بن رہی ہیں۔