حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اصل کہانی، پی ٹی آئی عمران خان کو کیسے رہا کروانا چاہتی ہے؟

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے درمیان جاری مذاکرات کی اصل کہانی سامنے آ گئی ہے، مذاکرات میں پی ٹی آئی کے اصل مطالبات بھی آشکار ہو گئے ہیں، دوسری جانب پی ٹی آئی تحریری مطالبات پیش کرنے میں ناکام رہی تو مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑنے کا بھی امکان ہے۔

ملکی اخبار دی نیوز نے حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے ایک رکن کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پہلا اور سب سے اہم مطالبہ اس کے بانی عمران خان کی رہائی ہے۔

کمیٹی کے رکن نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سابق حکمران جماعت نے مذاکرات کے دونوں سیشنز میں نظربندی کے آپشن کے بجائے سابق وزیراعظم کی مکمل رہائی کا مطالبہ دہرایا ہے۔

پی ٹی آئی کا ایک ہی مطالبہ
اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی نے 23 دسمبر کے اجلاس کے دوران عمران خان کی رہائی کا پہلا مطالبہ کیا تھا۔ ’یہاں تک کہ 2 جنوری کی میٹنگ میں بھی اس مطالبے کو پھر دہرایا گیا۔

پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے عمران خان کی پہلے اور دیگر کی بعد میں رہائی کا مطالبہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مطالبہ ان کے لیے کتنا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
رپورٹ کے مطابق جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا کرانا چاہتی ہے یا بنی گالہ میں نظربند رکھنے کی خواہاں ہے تو ذرائع نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

کمیٹی کے حکومتی رکن نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے گھر میں نظربندی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ حراست سے ان کی مکمل رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے عمران خان کی رہائی
پی ٹی آئی کے عوامی مؤقف کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہ معزول سابق وزیراعظم عمران خان نے صرف پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے؟، تو ذرائع نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں ملاقاتوں میں پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ عمران خان کی رہائی تھا، اس کے بعد دیگر لوگ تھے۔

کیمٹی کے رکن نے کہا کہ دیگر میں شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری اور پارٹی کارکن شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی رہائی جاری مذاکرات میں پی ٹی آئی کی اولین ترجیح ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کتنے سیاسی قیدی رہا ہوئے
کمٹی کے رکن کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران حکومتی کمیٹی کے ارکان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے بارے میں سوالات کیے کہ اس طرح کتنے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا؟
عمران خان کے دور میں رانا ثنا اللہ، شہباز شریف، عرفان صدیقی، خواجہ آصف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ کیا انہیں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے رہا کیا گیا تھا؟

پی ٹی آئی شرمندگی سے بچنا چاہتی ہے
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی ٹیم کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان کی قائم کردہ پارٹی شرمندگی سے بچنے کے لیے بغیر کسی تحریری معاہدے کے ان کی رہائی چاہتی ہے۔

تاہم ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر عمران خان کو رہا ہی کرانا ہے تو پی ٹی آئی کو کچھ تحریری مطالبات پیش کرنے چاہییں کیونکہ حکومت کو رہائی کے لیے قانونی آپشنز پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے‘۔

پی ٹی آئی عمران خان کی منظوری کے بغیر فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم یا تو اعتماد سے محروم ہے یا عمران خان کی منظوری کے بغیر فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ مذاکرات کے دوران زیر بحث آنے والے ہر معاملے پر پی ٹی آئی کا جواب یہ ہوتا ہے کہ انہیں پہلے عمران خان سے پوچھنے اور مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ پہلے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی 2 جنوری کو تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ جمع کرائے گی تاہم انہوں نے دوسری میٹنگ کے دوران بھی اسے تحریری شکل میں نہیں لایا۔

پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات آنا ضروری ہیں، عرفان صدیقی
جب کمیٹی نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں پہلے عمران خان کے ساتھ مطالبات پر تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار جب وہ ان کی منظوری دے دیں گے، تو انہیں تحریری شکل میں پیش کیا جائے گا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پی ٹی آئی کمیٹی کو چارٹر آف ڈیمانڈ پر بات چیت کے لیے عمران خان تک رسائی دی گئی ہے تو سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی چارٹر آف ڈیمانڈز تحریری شکل میں لائے گی اور حکومت عمران خان کے ساتھ ملاقات کی سہولت فراہم کرے گی تاکہ ان کے ساتھ بات چیت کے نکات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

حکومت نے اپنے تمام وعدے پورے کیے ہیں
حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور عمران خان سے ملنے میں ان کی مدد کی ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ایک علیحدہ میٹنگ روم کا انتظام کرے جہاں کوئی بھی ان کی بات نہ سن سکے۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت نے پچھلے تمام معاہدوں کی تعمیل کی ہے۔

تحریری مطالبات کے بغیر مذاکراتی عمل متاثر ہو سکتا ہے
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان نے بھی خبردار کیا کہ اگر پی ٹی آئی اپنے وعدے کے مطابق اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی تو مذاکراتی عمل میں خلل پڑ سکتا ہے۔ ایک نجی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم 12 دن میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکے۔

عرفان صدیقی نے وضاحت کی کہ حکومت نے ان کے الفاظ کا احترام کیا اور عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی ٹیم کی ملاقات میں سہولت فراہم کی لیکن پی ٹی آئی اس بارے میں فیصلہ نہیں کر سکی کہ ’چارٹر آف ڈیمانڈ‘ تحریری طور پر پیش کیا جائے یا نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے عمران خان سے مشاورت کرنے اور چارٹر آف ڈیمانڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اور موقع مانگا ہے۔ہم نے اسے قبول کر لیا لیکن اگر تیسرے اجلاس میں بھی مطالبات کا تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش نہ کیا گیا تو مذاکراتی عمل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سیاسی قیدی ہونے کا تعین جرم کی نوعیت پر
ایک اور سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ سیاسی قیدی ہونے کا تعین جرم کی نوعیت سے ہوتا ہے نہ کہ فرد کی شناخت سے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹ کا رکن ہونے کے ناطے میں قتل کرتا ہوں اور اس کی پاداش میں جیل میں ہوں تو مجھے سیاسی قیدی نہیں سمجھا جائے گا۔ اس طرح کے استثنیٰ کا اطلاق صدر پاکستان پر بھی نہیں ہوتا۔

پی ٹی آئی کا 45 لاپتا افراد کا سراغ لگانے کا مطالبہ
انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان اور دیگر قیدیوں کی رہائی اور عدالتی کمیشن کے قیام کے مطالبے کے علاوہ پی ٹی آئی نے 45 لاپتا افراد کا سراغ لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے ان 45 افراد کے نام، پتے اور شناخت مانگی تو پی ٹی آئی کے پاس تفصیلات دستیاب نہیں تھیں۔ حکومت ان لوگوں کا سراغ کیسے لگا سکتی ہے جن کی تفصیلات پی ٹی آئی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔

حکومت کا پی ٹی آئی سے مطالبہ
عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ حکومت نے نہ تو پی ٹی آئی سے کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی سول نافرمانی کی کال واپس لینے کو کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق نہ تو حکومت اور نہ ہی کسی ادارے نے خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ یا کسی اور مقام پر منتقل کرنے کی پیش کش کی ہے۔

انہوں نے کسی بھی متوازی یا پس پردہ مذاکرات کی افواہوں کو بھی مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے تیسرے دور کی تاریخ پی ٹی آئی دے گی۔

ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا، حامد رضا
ادھر پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم کے رکن صاحبزادہ حامد رضا نے حکومت کے اس دعوے کی تردید کی کہ انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

حامد رضا نے حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف سیاسی انتقام اور استغاثہ کے ذریعے منفی ہتھکنڈوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کی مذاکراتی ٹیم پر واضح کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت مقدمات کا سامنا کرے گی لیکن حکومت کو استغاثہ کی جانب سے سیاسی انتقام اور منفی ہتھکنڈے بند کرنے چاہییں۔

حامد رضا نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ عمران خان کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا ہے، لیکن’یہ صرف آئینی اور قانونی فریم ورک کے تحت ہونا چاہیے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں