بیجنگ ٹیکنالوجی کی جنگ میں واشنگٹن کے لیے کیا مشکلات کھڑی کرسکتا ہے؟

چین اور امریکا کے درمیان ٹیکنالوجی، معدنیات کی درآمد اور برآمد، تجارت سمیت دیگر شعبوں میں دوطرفہ جنگ مزید شدت اختیار کر گئی ہے، چین اور امریکا ٹیکنالوجی اور معدنیات کے شعبے میں ایک دوسرے پر کم سے کم انحصار کرنے کے لیے متبادل راہیں تلاش کرنے میں مصروف عمل ہو گئے ہیں۔
معدنیات پر پابندی لگانے سے لے کر امریکی کمپنیوں کی تحقیقات تک، 2025 میں امریکا اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی تجارت کے میدان میں چین کے پاس کیا کارڈ ہیں، اس حوالے سے ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں؟

امریکا کی جانب سے چین کی ٹیکنالوجی پر پابندیاں عائد کرنے کے دباؤ کے بعد چین نے بھی حال ہی میں امریکا اور اس کی کمپنیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں زمینی رسد کو کاٹنا اور چین میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندیوں اور سزا دینا شامل ہے۔

امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ وہ امریکا کے لیے چینی برآمدات پر محصولات عائد کریں گے اور تجزیہ کاروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ باضابطہ طور پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ چین کی ٹیکنالوجی پر پابندیاں مزید سخت کر دیں گے۔

چِپ کی تیاری میں امریکا، چین جنگ
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید چپس کو محدود کرنے سے لے کر روایتی چپس کا جائزہ لینے تک، امریکا چین کے خلاف اپنی ’چپ جنگ‘ کو تیز کر رہا ہے۔

23 دسمبر کو امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ چین کی روایتی سیمی کنڈکٹر صنعت کے بارے میں ’سیکشن 301‘ تحقیقات کا آغاز کرے گی، جس میں بنیادی سیمی کنڈکٹر کے میدان میں روایتی چپس کی تیاری پر غلبہ حاصل کرنے کے چین کے ہدف اور امریکی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

پختہ پروسیس چپس بڑے پیمانے پر آٹوموبائل، صحت کی دیکھ بھال، بنیادی ڈھانچے، ایرو اسپیس اور دفاعی صنعتوں سمیت دیگر مختلف شعبوں میں ایک وسیع رینج میں استعمال کی جاتی ہے۔

چین کی وزارت تجارت نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی 301 کے تحت تحقیقات یکطرفہ اور تعصب پسندانہ ہیں، اس سے ’عالمی چپ انڈسٹری اور سپلائی چین میں خلل آئے گا، اس سے امریکی کمپنیوں اور صارفین کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔

’چپ جنگ‘ میں امریکا اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے چین کی ٹیکنالوجی کو دبانے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

سیمی کنڈکٹر چپس کے میدان میں چین کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی کو 2 پہلوؤں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک یہ کہ چین کی اعلیٰ درجے کی چپ ٹیکنالوجی اور آلات تک رسائی کو محدود کرنا اور برآمدی کنٹرول اقدامات کے ذریعہ چین کو پیداوار کے لیے ضروری اعلیٰ درجے کی چپس اور لیتھوگرافی آلات کی برآمد پر پابندی لگانا شامل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روایتی چپس کے لیے چین کی جانب سے دی جانے والی اسبسڈیز کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں تاکہ چین میں تیار کی جانے والی کم قیمت چپ مصنوعات کی ڈمپنگ کو بین الاقوامی مارکیٹ پر اثر انداز ہونے سے روکا جا سکے۔

جدید چپس کے میدان میں ، امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی (بی آئی ایس) نے 2 دسمبر کو چین کے خلاف برآمدی کنٹرول اقدامات کے ایک نئے سلسلے کا اعلان کیا، جس کا مقصد جدید ہتھیاروں کے نظام، مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور جدید کمپیوٹنگ ٹیکنالوجیوں کے لیےجدید نوڈ سیمی کنڈکٹر تیار کرنے کی چین کی صلاحیت کو مزید کمزور کرنا ہے
اس نے 136 چینی کمپنیوں کو امریکی محکمہ تجارت کی ایکسپورٹ کنٹرول انٹرپرائز لسٹ (اینٹیٹی لسٹ) میں بھی شامل کیا ہے اور 20 سے زیادہ اقسام کے سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ آلات اور سیمی کنڈکٹر تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے 3 سافٹ ویئر ٹولز کو ریگولیٹ کیا۔

سینٹر فار اے نیو امریکن سیکیورٹی (سی این اے ایس) کی اسسٹنٹ فیلو روبی اسکینلون نے کہا کہ چپ ٹیکنالوجی کے شعبے میں چین براہ راست جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی جدید ٹیکنالوجی پرحاوی ہیں۔

انہوں نے امریکی ریڈیو کو بتایا کہ اگر امریکا چین کو معروف این ویڈیا چپس کی برآمد روک دیتا ہے، تو جواب میں چین شاید ایسا نہ کر سکے کیونکہ وہ مقامی سطح پر (جدید) چپس تیار نہیں کر سکتا۔

معدنیات پر پابندیاں
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چین پر عائد پابندیوں کے جواب میں چین نے حال ہی میں جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

چین کے سرکاری انگریزی میڈیا نے 25 دسمبر کو ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ چین کے جوابی اقدامات میں نایاب معدنیات جیسے اہم وسائل پر برآمدی کنٹرول لگانا شامل ہے، جو فوجی اور تکنیکی ایپلی کیشنز کے لیے اہم ہیں۔

متعلقہ امریکی ایجنسیوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اہم معدنیات میں چین کے گیلیئم کے ذخائر دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً 68 فیصد ہیں اور گیلیئم کی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا 90 فیصد سے زیادہ ہے۔

دنیا میں جرمینیم کے ثابت شدہ ذخائر 8,600 ٹن ہیں، جن میں امریکا اور چین بالترتیب 45 فیصد اور 41 فیصد کے مالک ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں چین نے مجموعی طور پر دنیا کی 68.5 فیصد یورینیم فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ، چین کی گریفائٹ کی پیداوار بھی دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً 77ہے۔

بیرونی دنیا کا ماننا ہے کہ گیلیئم، جرمینیم، اینٹیمنی اور دیگر دہرے استعمال کی اشیا جو چین بنیادی طور پر فراہم کرتا ہے، چین انہیں امریکا کی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

3 دسمبر کو چین کی وزارت تجارت نے اعلان کیا تھا کہ چین امریکا کو گیلیم، جرمینیم، اینٹیمنی اور سپر ہارڈ مواد سمیت اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی عائد کرے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چین نے وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان میں استعمال ہونے والے اس مواد پر پابندی صرف امریکا پر عائد کی ہے۔

ایک امریکی جریدے نے اپنے مضمون میں لکھا کہ چین اگرچہ کلیدی معدنیات کی پیداوار اور ریفائننگ پر غالب ہے، لیکن یہ واحد عالمی سپلائر نہیں ہے۔ امریکی مردم شماری بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکا نے گزشتہ سال چین کے مقابلے میں کینیڈا سے زیادہ غیر پروسیسڈ گیلیئم درآمد کیا، جبکہ پروسیسڈ جرمینیم کا سب سے بڑا سپلائر جرمنی تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں