غیرقانونی تارکین وطن: جان لیوا ’ڈنکی روٹ‘ کیوں مقبول ہے؟

13 دسمبر کو یونان کے جزیرہ کریٹ کے جنوب میں کشتیاں الٹنے کا خوفناک واقعہ ہوا جس میں 40 پاکستانی جان کی بازی ہار گئے، حکام کے مطابق حادثے میں جان حق ہونے واے افرد غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر یونان جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران کشتیاں حادثہ کا شکار ہو گئی۔

’ڈنکی فلائٹس‘ یا ’ڈنکی روٹ‘ پنجابی لفظ ’ڈنکی‘ پر مبنی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب’ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگ لگانا‘ ہے، یہ لفظ ایک غیر قانونی طریقے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں لوگ دوسرے ممالک میں متعدد بار رکتے ہوئے غیر معروف راستے پر سفر کر کے کسی دوسری ملک کی سرحد پار کرتے ہیں۔
ہر سال ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس میں غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے افراد یا تو پکڑے جاتے ہیں یا پھر کسی کشتی کے حادثے کے نتیجے میں ابدی نیند سو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ ڈنکی لگانے والے افراد کی تعداد کم نہیں ہو رہی ہے۔

دوسری جانب غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے افراد کی تعداد بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، وی نیوز کو موصول ہونے والے ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق گزشتہ 5 سالوں کے دوران غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنیوالے 63023 افراد کو مختلف سرحدی علاقوں سے گرفتار کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاچکا ہے۔
2021 میں سب سے زیادہ 19557 پاکستانی شہری ایرانی حکام نے گرفتار کیے، 2020 میں 19 ہزار 69، 2022 میں 5 ہزار 676 جبکہ 2023 میں 8 ہزار 227 افراد کو غیر قاقانی طور پر سرحد پار کرتے ہوئے ایرانی فورسز نے گرفتار کیا، رواں سال دسمبر کے وسط تک 10 ہزار 434 افراد پاکستانی حکام کے حوالے کیے گئے ہیں۔

ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق 2023 کے مقابلے پر 2024 میں سرحد پار کرنیوالے افراد میں 25 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جبکہ 2022 کے مقابلے پر 2023 میں سرحد پار کرنیوالے افراد میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا تھا۔

ڈنکی کیسے اور کن راستوں سے لگائی جاتی ہے؟
ڈنکی لگوانے والے ایک ایجنٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہوتا ہے، جو اکثر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ڈنکی لگانے والے ایجنٹس کا پتا لگا لیتے ہیں۔

’جس کے بعد 15 سے 20 لاکھ روپے کے درمیان ان ایجنٹس کو دے کر غیر قانونی طور پر ڈنکی کے خطرناک سفر کا آغاز کیا جاتا ہے، مجموعی طور پر ڈنکی لگانے کے دو راستے موجود ہیں جس میں ایک زمینی راستہ ہے اور دوسرا سمندری راستہ ہے۔‘
ایجنٹ کے مطابق، زمینی راستے کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ڈنکی لگانے والے افراد کو بسوں ٹرینوں کے ذریعے کوئٹہ لایا جاتا ہے جس کے بعد نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان سے ایران کی سرحد لے جایا جاتا ہے۔

’ایران پہنچنے کے بعد ڈنکی لگانے والے ان افراد کو دوسرے ایجنٹ کے سپرد کیا جاتا ہے جو ایران اور ترکی کے درمیان دشوار گزار سلسلوں سے چھپ چھپا کر نوجوانوں کو مسلسل پیدل چلا کر ترکیہ تک پہنچاتے ہیں، ڈنکی لگانے والے افراد کی مشکلات یہاں ختم نہیں ہوتی۔‘
ترکیہ کی سرحد پار کرنے کے بعد ان نوجوانوں کو تیسرے ایجنٹ کے سپرد کیا جاتا ہے جس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو یونان تک پہنچائے، لیکن ہر گزرتے سال کے ساتھ سرحدی سیکیورٹی میں اضافے کی وجہ سے اب ایران کے راستے غیر قانونی طور پر ڈنکی لگانا مشکل ہو گیا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ ایجنٹس اب نئے طریقے استعمال کررہے ہیں، جس میں پہلے نوجوان کو ویزا لگا کر دبئی لے جایا جاتا ہے، اور وہاں سے غیر قانونی طور پر لیبیا اور لیبیا سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے یونان تک لے جایا جاتا ہے۔‘
ڈنکی چاہے زمینی راستے سے لگوائی جائے یا سمندری راستے سے خطرہ ایک جیسا ہی ہے، تاہم ڈنکی لگانے میں جان کا خطرہ تو رہتا ہی ہے لیکن کم پیسوں میں نوجوان یورپ پہنچ جاتے ہیں۔

نوجوان ڈنکی کیوں لگاتے ہیں؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشوار گزار سفر، جان کا خطرہ، اپنوں سے دوری اور کئی مشکلات پر مبنی اس ڈنکی کے سفر کو اختیار کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال غربت کی شرح گزشتہ برس 40.2 سے بڑھ کر 40.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ملک میں غیر مستحکم معیشت، سیاسی عدم استحکام، بڑھتی بھوک، افلاس اور بے روز گاری کے سبب نوجوان مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس مایوسی کے باعث نوجوان لاچار ہو کر ڈنکی کے خوفناک راستے کو اپناتے ہیں، دوسری جانب ڈنکی لگوا کر غیر قانونی طور پر یورپ منتقل کرنے اور وہاں سنہرے مستقبل کے خواب دکھانے والے یہ ایجنٹ بھی ان نوجوانوں سے لاکھوں روپے وصول کر کے انہیں موت کے سپرد کر دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں