آئی پی پیز سے ختم ہوتے معاہدے، کیا عوام کو مہنگی بجلی سے نجات مل سکے گی؟

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی سیکٹر (آئی پی پیز) سے ہوئے معاہدے بتدریج ختم کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مزید 8 معاہدے منسوخ ہونے پر ایسے آئی پی پیز کی تعداد 13 ہوگئی ہے، جن سے اب بجلی نہیں خریدی جائے گی۔

امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں آئی پی پیز سے ختم ہوتے معاہدوں اور اس کے نتیجے میں متوقع سستی بجلی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 238 ارب روپے بچت کی بچت ہوگی۔

سرمایہ کاروں کو منفی پیغام
ان معاہدوں کی منسوخی کیا رنگ لائے گی؟ اس حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ معاہدے یکسر ختم کرنے سے جہاں سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جا رہا ہے وہیں ان اقدامات سے بجلی کی قیمتوں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق ماضی میں بجلی کے شعبے کے نقصانات کا ازالہ محض بجلی کی قیمتیں بڑھا کر پورا کرنے کی پالیسی نے بعض مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جب کہ عوام اور ملک کو اس کا نقصان ہوا۔

سرمایہ کار دوست پالیسی
رپورٹ میں ماہر توانائی عابد انوار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 90 کی دہائی میں نجی بجلی گھر قائم کرنے کی سرمایہ کار دوست پالیسی اپنائی گئی، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس پالیسی کا فائدہ چند خاندانوں کو پہنچا اور نقصان ملک بھر نے اٹھایا۔

پالیسی نقائص
عابد انوار کے مطابق بجلی کا تعطل کسی حد تک دور کرنے میں یہ سرمایہ کاری کامیاب بھی رہی، لیکن اس کے لیے مہنگے سودے کیے گئے اور پالیسی نقائص کی وجہ سے چند برسوں بعد ہی اس کے نتائج سامنے آنے لگے۔

صارفین پر 455 ارب روپے کا بوجھ
رپورٹ میں ایک تازہ ریسرچ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف گزشتہ 8 برسوں میں بجلی کی اوسط قیمت میں 116 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ قیمتوں میں بار بار ہونے والے ان اضافوں نے صارفین پر 455 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا۔

ریسرچ رپورٹ کے مطابق قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ مارچ میں ہوا اور یہ اضافہ 7 روپے 6 پیسے فی یونٹ کا تھا۔ جب کہ آخری اضافہ اگست میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے سامنے آیا جس میں بجلی کے نرخوں میں مزید 2 روپے 56 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا تھا۔

پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نہیں
میڈیا رپورٹ کے مطابق کئی ماہرین توانائی اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کی منصوبہ بندی میں پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نہیں ہے۔

اصل مسئلہ
ماہرین کے مطابق بجلی کے بلوں پر اصل مسئلہ 40 سے 45 فی صد اس رقم کا ہے جو بجلی کے ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔

حکومت خود کیپیسٹی پیمنٹس وصول کر رہی ہے
میڈیا رپورٹ میں ماہر توانائی سعد شہزاد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ حکومت خود آئی پی پیز میں 50 فی صد سے زیادہ براہ راست حصص رکھتی ہے۔ خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بننے والے بجلی گھروں میں حکومت کے بڑے شئیرز ہیں اور یوں حکومت بطور مالک، خود ہی زیادہ تر نجی بجلی گھروں کے کیپیسٹی پیمنٹس وصول بھی کر رہی ہے۔

بجلی پر ٹیکس کم کرنا ہوں گے
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹس کے حل کے لیے بات چیت کے ساتھ حکومت کو آئی پی پیز کے قرض کو طویل مدت کے لیے ری پروفائل کرنے اور بجلی پر ٹیکس کم کرنا ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں