پی ٹی آئی احتجاج کی ناکامی، پارٹی اختلافات سے دوچار، بشریٰ بی بی پر تنقید

تحریک انصاف کے اسلام آباد میں حالیہ احتجاج کے بعد پارٹی شدید اختلافات سے دوچار ہے، سینئر پارٹی رہنماؤں کے درمیان احتجاج کی غیر مؤثر حکمت عملی پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اس احتجاج کی ناکامی پر براہ راست بشریٰ بی بی کو تنقید کا ہدف بنارہے ہیں، کیونکہ احتجاج کی سربراہی کا بیڑہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ وہ ڈی چوک جانے پر بضد رہیں۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے کیے گئے اس احتجاج کے ذریعہ پارٹی اپنے مقصد میں ناکام رہی، یہی وجہ ہے کہ منگل کی شب ڈی چوک پر آپریشن کے بعد سے پارٹی کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔

پارٹی کے سینئر رہنما شوکت یوسفزئی نے کہا کہ علی امین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا عمران خان نے دارالحکومت میں سنگجانی کے مقام پر جلسے پر رضامندی ظاہر کی لیکن بشریٰ بی بی ڈی چوک جانے پر اصرار کرتی رہیں۔
شوکت یوسفزئی نے بشریٰ بی بی کی جانب سے احتجاج کی سربراہی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے کہ موجودہ قیادت پارٹی سنبھالے گی یا بشریٰ بی بی، انہوں نے بے اختیار ’پارٹی لیڈرشپ‘ کو استعفیٰ دینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

شوکت یوسفزئی نے ڈی چوک پر ہونیوالے آپریشن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پارٹی کی پنجاب کی قیادت کہاں غائب تھی، انہوں نے تسلیم کیا کہ ڈی چوک پر بیٹھنے کے باوجود کوئی پلان نہیں تھا۔
شوکت یوسفزئی کا موقف تھا کہ احتجاج پر روانہ ہونے سے قبل مشاورتی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تھی، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پارٹی قیادت احتجاجی مظاہرین کی قیادت کے لیے سامنے نہیں آئی۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پارٹی میں اختلافات کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کو کامیاب قرار دیا ہے، ان کے مطابق حکومتی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک تک پہنچے۔

علی امین نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے براہ راست فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتیں قطعی ناقابل قبول تھیں۔ انہوں نے وفاق اور پنجاب حکومت کے غیر قانونی اور جابرانہ رویے کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں