پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن نے وی پی این کی بندش کو آئی ٹی کیلیے تباہ کن قرار دیدیا

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد مصطفیٰ سید نے خبردار کیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سروسز کو بلاک کرنے سے یقینی طور پر آئی ٹی اور اس سے چلنے والی تمام سروسز کو نقصان پہنچے گا۔

سجاد مصطفیٰ سید نے مزید وضاحت کی کہ وی پی این کی بندش سے آئی ٹی انڈسٹری کو قلیل مدت میں ملین ڈالر کا نقصان ہو گا۔ اس کے علاوہ غیر محسوس نقصانات صنعت کے لیے طویل مدت میں بہت زیادہ اور تباہ کن ہوں گے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پاکستان کی تیزی سے ترقی کرنے والی صنعت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا اور اس کا معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ آئی ٹی تمام صنعتوں کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔

سجاد نے واضح کیا کہ ملکی اور بین الاقوامی آئی ٹی کمپنیاں پاکستان میں اپنے کاموں کو بند کرنے یا نمایاں طور پر محدود کرنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کے علاوہ حکومت کے یہ اقدام ہماری آئی ٹی کمپنیاں اور ان کی افرادی قوت، اسٹارٹ اپ انٹرپرینیورز، فری لانسرز، اور اس شعبے سے وابستہ ہر فرد کے لیے انتہائی مایوس کن اور حوصلہ شکنی ہو گا جو پاکستان کو ٹیکنالوجی کی عالمی منازل میں سب سے آگے لانے کے لیے بہت محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئی ٹی انڈسٹری ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اپنی لڑائی میں دل و جان سے ریاست اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے بتایا کہ پاکستان کی آئی ٹی اور آئی ٹی برآمدات، انٹرنیٹ اور وی پی این کے استعمال پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اوسطاً 30 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں اور اگلے 5 سالوں میں 15 بلین ڈالر حاصل کرنے کے راستے پر ہیں بشرطیکہ حکومت برآمدات، بنیادی ڈھانچے اور آئی ٹی پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنائے۔

انہوں نے وضاحت کیا کہ اگر وی پی این کو بلاک کر دیا جاتا ہے تو بیشتر آئی ٹی کمپنیاں، کال سینٹرز، پاکستان کے بی پی او آرگنائزیشنز کے تمام بڑے کلائنٹس کے ساتھ ساتھ دیگر سے بھی محروم ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے کلائنٹس کے لیے ڈیٹا پروٹیکشن اور سائبر سیکیورٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور کنیکٹنگ وی پی این کے ذریعے کلائنٹ سسٹمز کے لیے ایک عالمی معیار اور دنیا بھر کے کلائنٹس کی بنیادی ضرورت ہے۔

مزید برآں کسی بھی سائز کی کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے کی طرف سے اپنے سیکیورٹی پروٹوکول میں مداخلت کو برداشت نہیں کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں