شارع فیصل پر گاڑیوں سے فائرنگ کے مقدمے میں کراچی پولیس نے بااثر امیر زادوں کو بچانے کے لیے حقائق مسخ کردیئے، پولیس نے واقعے کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ائیرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کی حوالگی رپورٹ اور پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے نے قلعی کھول دی۔
جن ملزمان کو اے ایس ایف نے حوالے کیا پولیس نے ان پر گرفتار کرنے کا مقدمہ درج کردیا، اے ایس ایف کی حوالگی رپورٹ اور پولیس مدعیت میں درج مقدمے میں سنگین تضاد سامنے آیا ہے۔
اے ایس ایف رپورٹ کے مطابق دونوں گروہ ایئرپورٹ کار پارکنگ چیک پوسٹ نمبر 1 سے پکڑے گئے، اے ایس ایف کی خالد کمپنی نے پکڑے گئے افراد کو پولیس کے حوالے کیا۔
رپورٹ کے مطابق ایئرپورٹ حدود سے محمد حسن، مصطفیٰ باوانی اور درین خان کو پکڑا گیا۔
اے ایس ایف رپورٹ میں نکہا گیا کہ درین خان نے بیان دیا کہ شارع فیصل سے آتے ہوئے ہماری گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے جواب میں میں نے بھی فائرنگ کی۔
رپورٹ کے مطابق دونوں گروہ فائرنگ کرتے ہوئے زخمی حالت میں ایئرپورٹ حدود میں داخل ہوئے۔
تاہم، پولیس کی مدعیت میں درج مقمدے میں کہا گیا کہ دوران گشت دو گاڑیوں میں سوار افراد کو ہوائی فائرنگ کرتے ائیرپورٹ جاتے ہوئے پایا گیا،گاڑیوں سے 4 افراد اتر کر جھگڑا کرنے لگے، سب انسپیکٹر حافظ امان اللہ نے انہیں گرفتارکرنے کی کوشش کی۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک زخمی سیکیورٹی گارڈ فضل الرحمٰن فرار ہو گیا، گرفتار ملزمان میں علی جان، محمد نواز اور محمد علی شامل ہیں۔
پولیس نے اے ایس ایف کی حوالگی پستول کا ذکر ایف آئی ار سے گول کردیا اور گرفتار تینوں افراد کی سیکیورٹی کمپنی سے وابستگی بھی ظاہر نہیں کی۔
واقعہ میں سندھ کے بااثر سیاسی و قبائلی خاندان کے فرد کے ملوث ہونے کا انکشاف
خیال رہے کہ شاہراہ فیصل پر چلتی گاڑیوں سے ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعہ میں سندھ کے بااثر سیاسی و قبائلی خاندان کے فرد کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، بااثر سیاسی و قبائلی شخص کے ملوث ہونے پر ایسٹ رینج پولیس کی نیندیں اڑ گئی ہیں، پولیس نے خوف و دہشت پھیلانے کے واقعے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں با اثر خاندان کا درین خان سوار تھا، درین خان اور محمد حسن نامی افراد کے درمیان لڑکی سے دوستی پر جھگڑا ہوا، دونوں جھگڑے کے بعد ڈیفنس کے کلب سے نکل کر شاہراہ فیصل پہنچے۔
تحقیقاتی حکام کے مطابق فائرنگ ٹیپو سلطان روڈ کے نزدیک شارع فیصل پر شروع ہوئی، گاڑیوں میں سوار مسلح افراد زخمیوں سمیت ایئرپورٹ کے ویپن فری زون تک پہنچے۔
واقعے میں ملوث سیکیورٹی گارڈ کا نجی سیکیورٹی کمپنی سے منسلک ہونا بھی مشکوک ہوگیا ہے، تحقیقاتی ذرائع کے مطابق زخمی گارڈ علی جان کو مبینہ طور پر ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کا جعلی کور دیا گیا، سیکیورٹی گارڈ کے پاس سے ایس ایم جی رائفل بھی ملی ہے جبکہ سیکیورٹی کمپنی ایس ایم جی رائفل فراہم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی اور ڈی آئی جی ایسٹ اظفر مہیسر جواب دینے سے گریزاں ہیں۔