پرانے استعمال شدہ موبائل فون کو مارکیٹ میں فروخت کرنے سے قبل چند احتیاطی تدابیر آپ کی زندگی کو نقصان ہونے سے بچا سکتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیکڑوں کیسز سامنے آتے ہیں جن میں کسی صارف کی اجازت کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کردی جاتی ہیں۔
ایک حالیہ کیس منظر عام پر آیا جب ایک خاتون پرانے موبائل فون کو فروخت کر کے مشکلات سے دو چار ہوگئیں۔
اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی پرائیوٹ یونیورسٹی کی 24 سال کی طالبہ حنا ہمدانی نجی تصاویر لیکس کا شکار ہوئیں۔ اس حوالے سے حنا کو ان کی دوست نے بتایا کہ کسی فیسبک اکاؤنٹ سے ان کی تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں۔
طالبہ نے فوری طور پر یہ اطلاع اپنی سینیئر ٹیچر کو دی جس کے بعد انہوں نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔ حنا نے یہ معاملہ اپنے والد سے بھی شئیر کیا جس کے بعد انہوں نے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کرائی۔
حنا کے والد اور ان کے اہل خانہ نے سائبر کرائم ونگ کی مدد سے تین ماہ کی محنت اور کوشش کے بعد اِس اکاؤنٹ کے بارے میں پتا لگا لیا۔
معاملہ یہ ہوا تھا کہ حنا نے نیا موبائل فون خریدا اور پرانا فون اپنے بھائی کو دکان پر فروخت کرنے کیلیے بھیج دیا،انہوں نے موبائل سے تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا تھا اور موبائل فیکٹری ری سیٹ بھی کردیا تھا۔
تاہم آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ملزم کے لیے موبائل فون سے ڈیلیٹ شدہ ڈیٹا ری کور کرنا مشکل کام نہیں تھا۔ اس طرح موبائل میں موجود حنا اور ان کی دوستوں کی تصاویر اور ڈیٹا اس شخص کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے ایک جعلی آئی ڈی بنا کر وہاں یہ تصاویر شیئر کردیں۔
مشہور آئی ٹی ماہر شمیم ردا کے مطابق ڈیٹا ریکوری کے سوفٹ ویئر اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ اُن کا مثبت استعمال کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچا جا سکے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بعض افراد اس کا غلط استعمال کرنے لگے ہیں۔
ان کے مطابق کئی واقعات میں اس سوفٹ ویئر نے لوگوں کو بڑے نقصان سے بچایا ہے تو بعض واقعات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ اس سے لوگوں کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک اور آئی ٹی کے ماہر تجویز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موبائل فون کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بجائے اپنے استعمال میں ہی رکھیں۔ یا پھر انہیں ناقابل استعمال بنا کر پھینک دیں۔