امریکی محکمہ انصاف اور استغاثہ نے پاکستانی شخص پر پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں ایک امریکی اہلکار کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق محکمہ انصاف اور استغاثہ نے ایک بیان میں کہا کہ 46 سالہ آصف رضا مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکہ میں کسی سیاستدان یا امریکی حکومت کے اہلکار کو قتل کرنے کے لیے ایک ہٹ مین کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا کہ “جیسا کہ آصف مرچنٹ کے خلاف الزامات دہشت گردی اور قتل سے متعلق ہیں، ہم ان لوگوں کا احتساب جاری رکھیں گے جو امریکیوں کے خلاف ایران کی مہلک سازش کو انجام دینے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو جنوری 2020 میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مار دیا گیا تھا۔
امریکی اٹارنی بریون پیس نے مزید کہا کہ آج کا فرد جرم یہاں اور بیرون ملک دہشت گردوں کے لیے ایک پیغام ہے۔
مطلوبہ مقتول کی شناخت نہیں کی گئی تھی لیکن اٹارنی جنرل نے پہلے کہا تھا کہ مرچنٹ کو 13 جولائی کو بٹلر، پنسلوانیا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قتل کی کوشش سے جوڑنے کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ پاکستانی شہری کے ”ایران سے قریبی تعلقات تھے“ اور یہ کہ مبینہ طور پر کرایہ پر قتل کی سازش ”سیدھا ایرانی پلے بک سے باہر“ تھی۔
ایف بی آئی کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ مرچنٹ نے مبینہ طور پر ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ 7 اگست کو یہ خبر منظر عام پر آئی کہ امریکا نے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کو امریکی سرزمین پر سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی اور ایران سے قریبی تعلقات کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی ایف بی آئی نے مقامی عدالت میں جمع کرائے دستاویز میں انکشاف کیا کہ آصف مرچنٹ نے رواں برس جون میں اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انہیں قتل کے لیے 5 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی اور مرچنٹ کو امریکا سے فرار ہونے کی کوشش سے پہلے ہی انڈر کور افسران کی اطلاع پر گرفتار کیا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق ایف بی آئی نے دعویٰ کیا کہ آصف مرچنٹ نے جون کے اوائل میں ایک ’مخبر‘ سے نیو یارک میں ملاقات کی اور اُس شخص کو قتل کے منصوبے کی تفصیلات بتائی۔ دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر اپنے مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘ بھی بنایا۔
ایف بی آئی کے مطابق آصف مرچنٹ نے جس شخص سے بات کی تھی اس نے ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ کو اطلاع دی تھی۔ اس سے قبل آصف مرچنٹ ایران کے بعد پاکستان پہنچ تھے اور انہوں نے ایران میں کچھ وقت گزارا تھا۔
مرچنٹ پر الزام ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہدف کے گھر سے دستاویزات چُرائی جانی تھیں، مظاہرہ کیا جانا تھا اور ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا قتل کروایا جانا تھا۔
دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے اس شخص سے کہا کہ ان کی ملاقات اجرتی قاتلوں سے کروائی جائے جس کے بعد جون میں ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے جون کے دوران ایک ہِٹ مین یعنی اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انھیں قتل کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ مبینہ طور پر قتل کے منصوبے کی تکمیل سے قبل 12 جولائی کو امریکہ چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں پرواز کی بُکنگ بھی کر رکھی تھی۔
آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑنے کے بعد کوڈ ورڈ کی مدد سے رابطے میں رہیں گے مگر اسی روز امریکی حکام نے انھیں گرفتار کیا تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔
اس موقع پر امریکی اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’ایران کئی برسوں سے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد انتقام کی کوششیں کر رہا ہے جسے محکمۂ انصاف کی جانب سے جارحانہ انداز میں ناکام بنایا جا رہا ہے۔ ’محکمہ انصاف ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا تاکہ ایران کے مہلک منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے اور امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔