غربت کے عجیب کھیل، کمسن بیٹی کی زندگی بچانے کی خاطر باپ کا انوکھا روپ

آج کل کراچی کی سڑکوں پر ایک انوکھا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے، گولڈن رنگ میں رنگا ہوا مجسمہ جو کسی سڑک کنارے کھڑا نظر آتا ہے دراصل ایک حقیقی انسان ہے۔

کراچی کے علاقے گرو مندر کے نذدیک پٹیل پاڑا کے مقام پر یہ شخص جس کا نام شنکر ہے ٹھٹھہ کے قریب واقع میر پور ساکرو کا رہائشی ہے۔ اپنی کمسن بیٹی کے گردوں کا علاج کرانے کے لئے وہ کچھ دن قبل کراچی آیا اور سرکاری اسپتال میں اپانٹمنٹ کا انتظار کرتے ہوئے ایک خالی پلاٹ پر زندگی گزار رہا ہے۔

شنکر نے اپنے خاندان کے حالات کی وجہ سے اپنے آپ کو مکمل طور پر گولڈن رنگ میں رنگا ہوا ہے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اپنی پرفارمنس دے رہا ہے۔ اس نے اپنی مکمل توجہ اور مہارت سے خود کو ایسے مجسمے کی صورت میں ڈھال لیا ہے کہ دیکھنے والے کو واقعی پتھر کا اصل مجسمہ محسوس ہوتا ہے۔ تیز رفتار گاڑیوں اور ٹریفک کے شور شرابے میں شنکر کی یہ خاموش پرفارمنس ایک جذباتی اور متاثر کن تجربہ فراہم کرتی ہے۔

اس منفرد انداز میں پرفارم کرنے سے روزانہ 1500 سے 2000 روپے کما لیتا ہے، جو اس کی مالی مشکلات میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے، گولڈن مین کے روپ میں ڈھالنے کے لیے شنکر نے 4 سے 5 ہزار روپے خرچ کیے،اس کے دو کمسن بیٹے بھی اس کے ساتھ مجسمہ بن کر کھڑے رہتے ہیں اور ان کی موجودگی اس پرفارمنس کو مزید جذباتی منظر پیش کرتی ہے۔

گولڈن مین کی یہ پرفارمنس صرف ایک فنکارانہ کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ایک والد کی بے پایاں محبت اور عزم کی علامت بھی ہے۔ شنکر اپنی بیٹی کے علاج کی خاطر ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور اس کی یہ جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ مجبوری انسان سے ہر وہ کام کرا لیتی ہے جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔

یہ کہانی ایک والد کی بے پناہ قربانی اور محنت کی عکاسی کرتی ہے، جو اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کے لیے ہر ممکن حد تک جا رہا ہے۔ شنکر کی یہ پرفارمنس ایک گہرے پیغام کے ساتھ ہے کہ مشکلات کے باوجود امید کی روشنی برقرار رکھی جا سکتی ہے اور ہر انسان میں اپنی تقدیر کو بہتر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

قیصر کامران

اپنا تبصرہ بھیجیں