AI ٹیکنالوجی: ترقی کا چانس اور چیلنجز ساتھ ساتھ

دنیا بھر میں تقریباً 70 فیصد کے قریب لوگ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں جن میں سے اوسطاً ہر صارف روزانہ 6.35 گھنٹے انٹرنیٹ سے منسلک ٹیکنالوجی کو استعمال کرتا ہے۔
انسان بمقابلہ چیٹ بوٹ
امریکی خبررساں ادارے وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان ایک منٹ میں 800 الفاظ پروسس کرتے ہیں. مصنوعی ذہانت سے چلنے والے چیٹ بوٹ کے پاس ایک منٹ میں 75،000 الفاظ پروسس کرنے کی صلاحیت ہے۔

مصنوعی ذہانت کے استعمال نے جہاں تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں وہیں تازہ ترین جائزوں کے مطابق مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔

سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی
سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر کام کرنے والے ماہرین مصنوعی ذہانت کو تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والا ایک بے مثال رجحان قرار دے رہے ہیں۔
ڈیجیٹل معیشت
اقتصادی ماہرین کے مطابق، دینا کے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر ڈیجیٹل معیشت کے ذریعہ پہلے سے کئی زیادہ رفتار ترقی کر سکتے ہیں۔ تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں دور دراز علاقوں کے مکین بھی اعلی تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کر سکتے ہیں

پہلے ہی پاکستان، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں لاکھوں نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعہ نئے نئے پروگرام اور اپیس بنا کر اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں خدمات سے اپنا روز گار وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

سائنسدان محمد بن موسیٰ الخوارزمی
آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا دارومدار الگورتھم، یعنی کمپیوٹر کے ذریعہ ریاضی کے قواعد استعمال کرنے کے سائنسدان محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے نام پر رکھے گئے مسائل کے حل کے طریقہ کار پر ہے۔
اہم سوالات
لیکن کیا دنیا نے اپنے آپ کو اے آئی مشینوں کے نظام کے لیے تیار کر لیا ہے؟ کیا تعلیم، زراعت اور صنعت میں ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار سے انسان کی کام کرنے اور سوچنے کی صلاحیتوں کو محدود کر رہا ہے؟ اور کیا سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال، عام لوگوں، عورتوں اور بچوں سمیت غیر محفوظ لوگوں کی ذاتی معلومات غلط ہاتھوں میں پہنچنے کے نتائج سے نمٹنے کے لیے حکومتیں اور معاشرے تیار ہیں؟

استعمال کے بارے میں آگاہی کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ جبکہ بڑے ترقیاتی نظاموں کی حفاظت، سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے غلط استعمال اور قانون پر عملداری حکومتوں کا کام ہے، تاہم افراد کو صارفین کے حیثیت سے اور معاشروں کو مجموعی طور پر بھی انٹرنیٹ جیسے بڑے آن لائن سپر ہائی وے کے پلیٹ فارم کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔

غلط تاثر
امریکی ریاست میری لینڈ کی ’ٹاؤسن یونیورسٹی‘ میں ’ماس کمیونیکیشن‘ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنوعی ذہانت اور معاشرے کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر رؤف عارف کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط نہیں ہے کہ آج کے لوگ الگورتھم کے کسی حد تک غلام بنتے جارہے ہیں۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا انتہائی اہم موڑ
انہوں نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ یہ ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا انتہائی اہم موڑ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ وہ افراد جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے وہ بھی الگورتھم کے استعمال سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

ایلگورتھم
ایلگورتھم کی بنیاد پر بنائے گئے پروگرام اور نظام اس طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں کہ الگورتھم انسانی خواہشوں، ان کی پسند اور حتیٰ کہ ان کے جذبات تک کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں