ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت 4 کھیلوں کا عالمی چیمپئن تھا۔ اس کے بعد کھیل کے میدان میں کوئی ایسی بڑی کامیابی نہیں ملی جس سے پوری قوم نے سب اختلافات بھلا کر کامیابی کا جشن منایا ہو۔ ارشد ندیم کا کارنامہ اس تناظر میں مزید عظیم ہو جاتا ہے۔ یہ بڑی خوشخبری ہے کیونکہ کسی ملک کی ترقی کے لیے قومی وحدت سب سے بنیادی جزو ہے جو امن وامان اور خوشحالی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ دیرپا اور مستحکم قومی وحدت کی بنیادیں کیا ہوتی ہیں اوراس کے لیے ہمارے ہاں کیا طریقے اپنائے جاتے ہیں جو آگے چل کر ایک نئے انتشاراور تباہی کو جنم دیتے ہیں۔
البتہ ارشد ندیم کی کامیابی میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کے لیے اس ضمن میں کچھ اشارے موجود ہیں کہ قومی وحدت جدید عہد میں کیا معنی رکھتی ہے اور اس کے لیے دنیا کی عظیم قومیں کیا کرتی ہیں۔ شاید ہمیں یہ بات بھی سمجھ آجائے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ثقافت اور کھیلوں کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی ا ورسرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں۔ فی الحال خوشی کی بات یہ ہے کہ قوم کے اندر یکجہتی کی کرن موجود ہے۔ اسی لیے تو ارشد ندیم کے اولمپک میں گولڈ میڈل جیتنے پر پریشان حال قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ کس مقام پہ لے آیا ہے جنوں ہم کو
رگوں میں آگ سی بہنے لگی لہو کی جگہ
(سجاد بلوچ)
جیولن تھرو کافی پرانا کھیل ہے۔ اس میں استعمال ہونے والا نیزہ قدیم زمانوں میں شکار کے لیے یا دشمن سے لڑائی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ قدیم زمانے کا انسان دور سے نیزہ پھینک کر جانور کا شکار کرتا تھا۔ نیزہ مختلف تہذیبوں کے اندر مختلف شکلوں میں اورطریقوں سے استعمال ہوتا رہا لیکن اس کی بنیادی صورت یہی رہی، یعنی اس کا ایک سرا ترشا ہوا اور نوک دار ہوتا۔ بعد میں لکڑی کے لمبے ڈنڈے کے سرے پر دھات کا نوک دارخول چڑھایا جانے لگا۔ جب انسان گروہ کی صورت میں شکار یا لڑائی کرنے لگا تو نیزہ مزید خطرناک ہتھیار کی صورت اختیار کر گیا۔ 3000 سال قبل مسیح میں سمیرین تہذیب میں بھی اس کے آثار ملے ہیں۔ اس کے 2000 سال بعد یونان میں بھی یہ استعمال ہوتا رہا۔ اس زمانے میں نیزے کی لمبائی 15 سے 20 فٹ ہوتی تھی۔ یونانیوں کا طریقہ یہ تھا کہ جنگجو پیدل دستے نیزے اٹھا کربھاگتے ہوئے دشمن پر یلغار کرتے اور ان کی صفوں میں گھس کر تباہی مچا دیتے۔ سکندر اعظم کی فوج بھی اس ہتھیار سے لیس تھی۔ 708 قبل مسیح میں قدیم اولمپکس میں جیولن تھرو بطور کھیل شامل تھا اور اس کے لیے یہی نیزہ استعمال ہوتا تھا۔
اس زمانے میں کھلاڑی کھڑے کھڑے نیزہ پھینکتا تھا۔ جدید انداز سے تیزی سے بھاگ کر پوری قوت سےنیزہ پھینکنے کا رواج بہت بعد میں پڑا۔ اس کی جدید ترین شکل جرمنی، سویڈن اورفن لینڈ میں اٹھارھویں صدی کی ساتویں اورآٹھویں دہائی میں سامنے آئی۔ وہاں نیزے کی مدد سے کسی خاص ہدف کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن بعد ازاں دور سے نیزہ پھینکنے کی صورت زیادہ مقبول ہوتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جدید اولمپکس کی تاریخ میں اب تک کے 69 جیولن تھرو گولڈ میڈلز میں سے 32 ناروے، سویڈن اور فن لینڈ نے جیتے ہیں۔
دنیا بھر کی جنگی تاریخ میں، بشمول مسلمانوں کی، نیزہ بطور ہتھیار استعمال ہوتا رہا اور اس کے کئی تاریخی حوالے بہت معروف ہیں۔ رثائی ادب میں دیکھیے تو انیس و دبیر کے پاس نیزہ کے متعلق بے شمار اشعار مل جاتے ہیں۔ اردو غزل اور نظم میں بھی نیزہ بطور استعارہ یا علامت بہت برتا گیا ہے۔
چودھویں سے سولہویں صدی میں دشمن کے فوجیوں کو گھوڑوں سے گرانے کے لیے بھی نیزوں کا استعمال ہوتا تھا۔ اس زمانےمیں سوس نیزہ باز اس فن کے ماہرسمجھے جاتے تھے، جنھیں فوجوں میں اسی مہارت کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گھوڑوں سے دشمن جنگجوئوں کو گرانے کے لیے استعمال ہونے والا یہ ہتھیار بعد میں گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کرگھوڑے کو تیزی سے بھگاتے ہوئے زمین پرگڑے ہوئے ’کلے‘ کومہارت کے ساتھ اٹھانے کے لیے استعمال ہونے لگا، نیزہ بازی کا یہ کھیل ہمارے ملک میں کافی مقبول ہے لیکن اس سے ایک خاص طبقہ امرا ہی جڑا ہوا ہے کیونکہ یہ بے حد مہنگا کھیل ہے۔
جیولن تھرو مہنگا کھیل نہیں لیکن عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایتھلیٹ کو خود کو جسمانی طور پر توانا رکھنے اور جدید خطوط پر تربیت کے لیے جو وسائل درکار ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے ہمارے ہاں سرکاری طور پر فراہم نہیں کیے جاتے، ان حالات میں ارشد ندیم جیسے نوجوان کا کارنامہ اور بھی قابل قدر بن جاتا ہے
سجاد بلوچ
سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔