مسلم لیگ کی بنیاد دسمبر 1906 میں ڈھاکہ میں رکھی گئی 23مارچ 1940 کی قرارداد لاہور کے محرک بنگال کے مولوی فضل الحق تھے مشرقی پاکستان کے عوام نے تحریک پاکستان میں انتہائی پرجوش حصّہ لیا پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی بڑی جذباتی اور مستحکم تھی بد قسمتی سے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ اپنی کالونی جیسا سلوک کیا 1947 سے 1971تک22سال میں مشرقی پاکستان میں ایک بھی چیف سیکرٹری بنگالی نہیں تھا اور اس عرصہ کے دوران مشرقی پاکستان کے 15 گورنر نامزد ہوئے جن میں سے 13 کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا یہاں سے وہاں جانے والے افسران بنگالیوں سے غلاموں جیسا سلوک کرتے ملازمین کی صورت میں ان کی عورتوں کی بے حرمتی کرنا اپنا حق سمجھتے فوجی آمریت نے مزید نفرت کے بیج بوئے 1970کے انتخابات میں آمر یحیٰی خان کا خیال تھا کہ دونوں صوبوں میں کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی لہذا کمزور حکومت انہیں صدر پاکستان بنانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ 160 جبکہ مغربی پاکستان کے زوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے81 قیوم لیگ 9 مسلم لیگ دولتانہ 2 اور نیشنل عوامی پارٹی 6 نشستیں حاصل کر پائی۔ فوجی ٹولہ اور بھٹو شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار بوجہ اس کے چھ نکات اقتدار سونپنے کے حق میں نہیں تھے لہذا بھٹو نے ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا کہ جو رکن اسمبلی ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی حالات کشیدہ تر ہوتے گئے فوج شیخ مجیب الرحمٰن کو غداری کے مقدمے میں گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے آئی جہاں ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت کا حکم صادر کیا جو بعد از غیر ملکی دباؤ کے معطل کرنا پڑا اس دوران مشرقی پاکستان میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے باشندوں کا وحشیانہ طور پر قتلِ عام ہوا فوج نے بنگالیوں پر گولیاں برسائیں دونوں اطراف سے ظلم و ستم کی ہولناک داستانیں رقم کی گئیں انڈیا نے بنگالیوں پر اپنی سرحدوں کے دروازے کھول دیے اور آخر کار اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں بنگالیوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا چند دن بعد وہاں موجود جنرل اے کے نیازی نے ہتھیار ڈال کر انڈین جرنیل کو اپنی اور79700 فوجی جوانوں کی گرفتاری پیش کردی 12500 سویلین بھی بھارت کے قیدی بنے امریکہ دفاعی معاہدہ ہونے کے باوجود پاکستان کی مدد کو نہ پہنچا اور یوں 16 دسمبر 1971 کو پاکستان دو لخت ہو گیا
زوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے ہوئے شکستہ پاکستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا تاکہ مشرقی پاکستان کے المیہ اور سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب کے جائزے کے ساتھ ساتھ زمہ داری کا تعین بھی کیا جا سکے۔یہ کمشن تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل تھا جسے حمود الرحمٰن کمیشن کا نام دیا گیا۔
جسٹس حمود الرحمن چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان
جسٹس انوار الحق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس ہائیکورٹ سندھ٬ بلوچستان
کمیشن نے 1974 میں اپنی رپورٹ مکمل کی مگر بھٹو نے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی 2000 میں انڈیا نے اس کی رپورٹ کی سمری شائع کر کے تہلکہ مچا دیا جس پر عوامی دباؤ کے پیشِ نظر جنرل مشرف نے کچھ حصّوں کے علاوہ باقی رپورٹ کی اشاعت کی اجازت دے دی
کمیشن کی سفارشات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1_ جنرل یحیٰی خان۔جنرل عبدالحمید۔لیفٹینٹ جنرل پیر زادہ۔لیفٹینینٹ جنرل گل حسن۔میجر جنرل عمر اور میجر جنرل مٹھہ نے 25 مارچ کو کو مجرمانہ سازش کر کے نہ صرف فیلڈ مارشل ایوب خان سے زبردستی اقتدار حاصل کیا بلکہ 1970 کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں دے کر لالچ دے کر اور رشوت دے کر مثبت نتائج حاصل کرنےکی کوشش کی۔بعد میں اراکین اسمبلی کو 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکا ان جرنیلوں کے خلاف فرائض سے مجرمانہ غفلت اور مشرقی و مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگی فرائض پورے نہ کرنے کے الزام میں مقدمات چلائے جائیں۔
2- لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان کے خلاف مجرمانہ غفلت اور شکر گڑھ کے محاز پر بخیر جنگ لڑے 500دیہات دشمن کے حوالے کرنےکے الزام میں مقدمہ چلایا جائے .
3_ لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی کے خلاف 15 الزامات کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے اس کے خلاف فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت٬ مشرقی پاکستان کا دفاع نہ کرنے اور بھارتی افواج کے سامنے شرمناک طور پر ہتھیار ڈالنے(surrender) کرنے کے الزامات ہیں اس کے پاس مزاحمت کرنے کی اہلیت اور زرائع موجود تھے۔
کمیشن نے دعویٰ کیا کہ ایسی شہادتیں سامنے آئیں جن سے ثابت ہوتا ھے کہ جنرل یحیٰی خان جنرل حمید اور میجر جنرل خدا داد ذاتی طور پر بد کردار٬ شراب کے رسیا اور کرپٹ تھے ان کمزوریوں کی بناء پر انہوں نے بزدلی پیشہ ورانہ نا اہلی اور فیصلوں سے گریز کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ میں بھٹو کے بارے میں تحریر کیا کہ اس نے عوامی لیگ کے پیش کردہ چھ نکات پر عوامی مؤقف اختیار نہ کیا اسے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا جنرل یحیٰی مطلق العنان حکمران تھے وہ صدر کمانڈر انچیف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے اقتدار اور طاقت ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے بلا جواز اقتدار منتقل کرنے میں دیر کی لہذا سقوط ڈھاکہ کی زمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ حمود الرحمن کمیشن نے جنرل گل حسن کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی مگر زوالفقار علی بھٹو نے انہیں آرمی چیف نامزد کر دیا۔
تاریخ کا المیہ یہ کہ جب ملک شکن یحیٰی خان کا انتقال ہوا تو اس کی نعش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ توپوں کی سلامی دے کر دفن کیا گیا۔انہی یحیٰی خان کو جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف نامزد کیا تو انسان شناس گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ ایوب خان نے اپنی زندگی کی انتہائی سنگین غلطی کی ہے جو اس نے ایک شرابی بدکار اور عیاش شخص کو کمانڈر انچیف بنا دیا ہے ایک دن وہ اپنی اس غلطی پر بہت پچھتائے گا۔
راؤ رشید اپنی کتاب جو میں نے دیکھا میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ یحیٰی خان نیپال دورے پر گئے تو علی الصبح ہی جہاز میں انہوں نے اتنی پی لی کہ وہ چل نہیں سکتے تھے گھنٹہ بھر جہاز فضا میں ہی گھومتا رہا اوپر پریشانی یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ اس قابل ہوں کہ نیچے اتر کر گارڈ آف آنر کا معائنہ کر سکیں جبکہ نیچے والے اس وجہ سے پریشان تھے کہ جہاز میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے آخر خدا خدا کر کے انہیں کھڑا ہونے کے قابل بنایا گیا اور جہاز نیچے اتارا گیا اسی طرح وہ مزید لکھتے ہیں کہ جب مشرقی پاکستان میں حالات بہت خراب تھے اسی دوران یحیٰی خان کا پشاور میں بنگلہ تیار ہوا جب اس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو ایسے محسوس ہوا کہ پاکستان کے جتنے کنجر اور دلے ہیں وہ مع اپنے اہل و عیال کے یہاں پہنچ گئے ہیں جنرل یحیٰی خان جنرل حمید کے ساتھ آئے سوئمنگ پول کے سامنے رات تین بجے تک شراب چلتی رہی وہاں ایک پشاور میں رہنے والا جرمن جوڑا بھی مدعو تھا اس کی بیوی بہت خوبصورت تھی جس کے متعلق مشہور تھاکہ وہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے اس کا کام یہی ہوتا تھا کہ وہ خاص طور پر فوجیوں کی پارٹیوں میں کسی نہ کسی طرح ضرور پہنچ جاتی تھی بکنی پہنے وہ بھی نہا رہی تھی کھیل یہ تھا کہ اس محترمہ کو جرنیل اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکتے قہقہے بلند ہوتے اور وہ پھر باہر نکل آتی تقریب ختم ہوئی پتہ نہیں یحیٰی خان سوئے یا نہیں مگر چار بجے رات وہ صرف انڈر ویئر کے ساتھ باہر نکل آئے نشے میں دھت وہ شور مچا رہے تھے کہ انہیں ابھی راولپنڈی پہنچایا جائے تمام لوگ اپنے کمروں سے باہر نکل آئے ڈی آئی جی کو فون کیا گیا کہ پریزیڈنٹ صاحب ننگے برآمدے میں کھڑے پنڈی جانے کے لیے تیار ہیں ایسے میں یحیٰی خان کے کمرے سے ایک خاتون نے دروازے کی آڑ سے انہیں واپس اندر بلانے کی کوشش کی مگر وہ مان ہی نہیں رہے تھے٬ پتہ نہیں کیوں؟
پھر فون کر کے یحیٰی خان کی ایک منظورِ نظر کو بلایا گیا وہ تشریف لائیں اور بڑی منت سماجت کرکے انہیں اس کمرے میں دوبارہ لے گیئں اور اس طرح اس بحران پر قابو پایا گیا کہ ننگ دھڑنگ صدر پاکستان کوپنڈی کس طرح پہنچایا جائے؟
مصنف جو آئی جی پنجاب کے علاوہ مختلف اہم عہدوں کے بعد بھٹو صاحب کے مشیر بھی رہے لکھتے ہیں کہ شاہ ایران نے ایرانی بادشاہت کا جب ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تو وہاں یحیٰی خان اتنے دھت ہو گئے کہ ان کا وردی میں ہی پیشاب نکل گیا۔
جس طرح ہر سال جنگ عظیم کے خاتمے کے روز جرمنی میں مختلف پروگراموں میں اس وقت کی کوتاہیوں کا احاطہ کیا
جاتا ہے کہ نئی نسل ان غلطیوں سے سبق حاصل کر سکےکیا ہی بہتر ہو اگر پاکستان میں بھی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی نشاندھی ممکن بنائی جائے ایسا کرنے سے قوم خصوصاً نوجوان نسل کبھی غافل نہیں ہو گی اللہ وتبارک تعالیٰ ہمارے بقیہ آدھے پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے رہتی دنیا تک قائم ودائم رکھے آمین ثم آمین