بیس پچیس سال قبل ڈیرے داری کسی کے بڑے پن، سدابہار چودھراہٹ اورگاو¿ں یا علاقہ کے کمزور لوگوں کی مدد کامرکز خیال کی جاتی تھی۔ڈیرے داروں کی رقابتوں اورایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال میں عام لوگوں کیلئے خوف کاپہلو بھی تھایہی وجہ ہے کہ سیاست میں ڈیرے داری کو پاور پالیٹکس کی علامت خیال کیاجاتارہاہے۔ ڈیرہ چوہدری عبدالمالک کی ایک لمبی تاریخ ہے ۔ چوہدری عبدالمالک مرحوم اور ان کے شریف النفس بیٹے چوہدری عبدالخالق مرحوم علاقہ میں اپنے سماجی وسیاسی تسلط اور عوامی مقبولیت کی بناپر ہی مخالفین کی رقابتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ڈیرہ کوٹلہ کی اچھی روایات تھیں جن کی بناپر یہ سماج کی دلچسپیوں کامرکزبنارہا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کوٹلہ ارب علی خاں اور گردونواح کے لوگ چوہدری عبدالمالک کے دورکی کہانیاں سناتے نہیں تھکتے اور چوہدری عبدالمالک سے کسی کے بڑوں کاتعلق فخر اور بڑے پن کی علامت خیال کیاجاتاہے۔ چوہدری عبدالمالک مرحوم کے بیٹوںکیلئے بھی ان کے والد کے عوامی روابط اور خاندان کی ساکھ بہت قیمتی اثاثہ ہے انہوں نے اس کو اہمیت بھی دی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی روابط کو نہ صرف قائم رکھابلکہ ان میں بہت اضافہ کیا۔ مشکلات بہت تھی لیکن کوٹلہ برادران کے عزم ، خاندانی حمیت اور چیلنجز قبول کرنے کی غیرمعمولی جرا¿ت نے انہیں سیاست کے دشوار گزار راستے پر ڈال دیا۔ 2008ءکے عام انتخابات میں ایک صوبائی نشست پر پراکسی کامیابی کے بعدچوہدری عابد رضانے خدمت خلق اور عوامی نمائندگی کی وہ مثالیں قائم کیں جن سے نہ صرف ان کے حریف قائل ہوگئے بلکہ وہ حق نمائندگی کانمونہ بھی بن گئے۔ ان کاڈیرہ اچھائی اور عوامی بھلائی کا مرکزخیال کیاجانے لگااور ان کیلئے فخرووقار کی علامت بن گیا۔ ڈیرہ داری سے متعلق لوگوں میں ایک مثبت تاثر پیداہوا۔ 2013ءکے انتخابات میں پارٹی قیادت نے کوٹلہ برادران کوایک قومی اور ایک صوبائی نشست کے لئے ٹکٹ دیئے اور دونوں نشستوں پر انہیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ عوام نے ان کو زبردست پذیرائی سے نوازا۔ پھر انہوں نے بھی عوامی خدمت کے وہ نئے ریکارڈ قائم کئے جو مدتوں بھلائے نہ جاسکیں گے۔ علاقہ کی ترقی یالوگوں کے انفرادی اور اجتماعی مسائل میں جس قدرچوہدری عابد رضا اور ان کے بھائیوں نے دلچسپی لی اس کی کم ازکم ضلع گجرات میں مثال نہیں ملتی۔ ان کی سیاست میں جو رکاوٹیں آئیں یاپیداکی گئیں ان کو انہوں نے سیاست، تدبر اور قانون کے دائرے میں رہ کر عبور کیااور ان کی سیاست کا قابل فخر پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی معاملے میں کسی غیرسیاسی حربے کاسہارانہیں لیا اور سیاسی حیثیت کاغلط استعمال نہیں کیا۔ خالصتاً یہ لوگ عوامی سیاست کے بل بوتے پر آگے بڑھتے رہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ دور میں بلدیاتی انتخابات میں کوٹلہ برادران کی کارکردگی بہت غیرمعمولی تھی ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کااعزاز بھی ان کے پاس آیااور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے بھی نہ صرف ان کی غیرمعمولی سیاسی حیثیت کااعتراف کیا بلکہ ان پر انحصارکیا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات ہوں یاکوئی اور چیلنج شریف برادران کی نظر میںضلع گجرات میں ڈیرہ کوٹلہ ہی ہوتا ۔ میاں محمد نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد کوٹلہ ارب علی خاں میں میاں نواز شریف کاکامیاب جلسہ تاریخ کاایک سنہری باب ہے۔2018ءکے انتخابات میں بدلے ہوئے حالات میں بھی چوہدری عابد رضا نے این اے71کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
کوٹلہ برادران کی سیاست کوتو کوئی آنچ نہیں آسکتی تھی لیکن میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد نہ صرف پارٹی تتر بترنہ ہوئی بلکہ میاں صاحب نے ”ووٹ کوعزت دو تحریک “ شروع کر دی چونکہ پس پردہ قوتوں کو میاں صاحب کا سیاست میں عمل دخل بالکل گوارا نہ تھا اس لئے پوری پارٹی کوآزمائش سے گزرناپڑا۔ الیکشن 2018ءمیں پارٹی بہت متاثر ہوئی ۔ ضلع گجرات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو صرف ایک نشست ملی جو چوہدری عابد رضانے اپنی مقبولیت اورسیاسی قوت کی بناپر حاصل کی ۔ سیاست میں پیسہ بنانے والے، مقدمات میں ملوث اور دھڑے بازڈیرے داروں کیلئے اپوزیشن کی سیاست موافق نہیں ہوتی لیکن کوٹلہ برادران اس لحاظ سے بڑے منفرد لوگ ہیں چوہدری عابد رضا اورچوہدری شبیراحمد نے بہت شفاف سیاست کی ۔ان پراگرکوئی مقدمہ تھا تو وہ بھی صحیح نہیں تھااور ان کادھڑا مظلوم تھے اس لئے یہ لوگ نہایت ثابت قدمی سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم پرنہ صرف موجود ہیں بلکہ پارٹی کااہم حصہ ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ حلقہ این اے 71میں ضلع میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہواہے لیکن کہیں سے بھی کوئی آواز ایسی نہیں اٹھی کہ اس حلقہ میں کہیں کرپشن ہوئی ہے۔ اگرمیاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے بعد خاموش بیٹھ جاتے اور شہباز شریف پارٹی کے بااختیار صد رہوتے تو 2018ءکے انتخابات کے بعد یقیناً حکومت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہی ہوتی اور پارٹی کیلئے خدمات کی بناپر کوٹلہ برادران کے پاس بھی مرکزی اور صوبائی وزارتیں ہوتیں۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں اسٹبلشمنٹ کو موجودہ بندوبست کرناپڑا۔ عمران خاں بذات خود توبین الاقوامی پہچان رکھتے ہیں لیکن ان کی پارٹی کی کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے اس میں آمروں کے ساتھ کام کاتجربہ رکھنے والے لوگوں کوشامل کیاگیا۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف حالیہ تحریک عدم اعتما د اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود ناکامی انہی تجربہ کار لوگوں کاکارنامہ ہے ۔
سیاسی عمل میں فاو¿ل پلےکے بڑے نقصانات ہیں ۔ عام طور پر ہماری نظروں میں مارشل لا ہی ایک ایسی خرابی ہے جو وطن عزیزمیں سیاسی عدم استحکام یا دیگر خرابیوں کاباعث بنتاہے جبکہ سیاسی عمل میں ڈنڈی مارنا کوئی کم جرم نہیںہے ۔جمہوریت میں رائے عامہ احتساب کابہتری ذریعہ ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی اوراقتدار کاحصول کسی عدالتی فیصلہ کانتیجہ نہ تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے متنازعہ این آراو کو اس پختہ یقین کے ساتھ قبول کیاتھا کہ وہ عوامی طاقت کی بناپر جنرل مشرف کے تسلط کاتوڑ کرلیں گی اور ہوا بھی یہی کہ ان کی وطن واپسی کے ساتھ ہی جنرل مشرف اور اس کے سیاسی حمایتیوں کامستقبل بے یقینی کاشکار ہوگیا اگرچہ بی بی اللہ کوپیاری ہوگئیں لیکن مشرف کو اقتدار چھوڑناپڑااور ملک میں سیاسی عمل کاآغاز ہوگیا۔اگرچہ مشرف کو ان کے جرائم کی سزا کسی عدالت نے نہیں سنائی اور نہ ہی انہیں موجودہ حکومت کے احتساب سے بھی کوئی خطرہ ہے ۔ حقیقت میں سیاسی عمل کاتسلسل بذات خود احتساب کاعمل ہے ۔ سیاسی عمل میں فاو¿ل پلے کانقصان ملک کوبھی ہوتاہے اور اس کے کردار بھی بچ نہیں پاتے۔ اس کی زندہ مثال موجودہ حکومت ہے ۔اس کی مشکلات کی بڑی وجہ سازشی سیاست ہے۔
2008ءسے 2018ءکے سیاسی عمل نے ملک کو کچھ استحکام دیاتھا سیاسی پارٹیوں کی سیاست کے منفی یامثبت پہلو سامنے آئے تھے ۔ رائے عامہ کے معیار میں بہتری آرہی تھی اور عوامی سیاست فروغ پارہی تھی مگر2018ءکے انتخابات کے نتیجہ میں معاشرے میں بے چینی ہے۔نوے کی دہائی میں میاں محمدنوازشریف اورمحترمہ بے نظیر بھٹوکی حکومتیں کرپشن کی بنیاد پر برخواست کی جاتی رہی ہیں لیکن عوام انہیں پھر بھی مینڈیٹ دیتے رہے ۔ افسوس کہ ان تجربات سے کسی نے سبق نہیں سیکھا ۔ آج بھی حکومت جوکچھ کر رہی ہے یاجوکچھ کرنے پر مجبور ہے رائے عامہ اس کے حق میں نہیں ہے۔ حقیقت میں وطن عزیز میں مستقبل عوامی سیاست ہے چونکہ رائے عامہ یہی چاہتی ہے۔امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں رائے عامہ ان کابھی احتساب کرے گی جو آج اپنی بقا محض احتساب کی سیاست میں ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔
