افواج سے متعلق قانون میں ترامیم: آرمی چیف اب سے چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر، عہدے کی مدت 5 برس ہوگی

قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء، پاکستان ایئرفورس ایکٹ 1953ء اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء میں ترامیم کثرت رائے سے منظور کرلیں، آرمی چیف کو اگلے پانچ برس کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر کردیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں آرمی ایکٹ 1952ء میں ترامیم کا بل پیش کردیا گیا۔

بل وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیپش کیا جس پر اسپیکر نے رائے شماری کرائی اور ایوان نے اسے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

اسی طرح پاکستان ایئرفورس ایکٹ 1953ء میں ترامیم اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء میں ترامیم کا بل بھی خواجہ آصف نے ایوان میں پیش کیا اور اسے بھی ارکان اسمبلی نے ووٹنگ کے ذریعے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

آرمی چیف اگلے پانچ برس کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر

آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، چیف آف ڈیفنس فورسز کی مدت اس دن سے شروع ہوگی جس دن سے نوٹی فکیشن جاری ہوگا، جب جنرل کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی جائے گی تو ذیلی سیکشن دو کے تحت خدمات انجام دیں گے، وفاقی حکومت آرمی چیف (چیف اف ڈیفنس فورسز) کی فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرے گی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کی کلاز 8 جی میں بھی ترمیم کے بعد چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025ء سے ختم تصور ہوگا، آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر وزیراعظم 3 سال کے لیے کمانڈر آف نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا تقرر کریں گے، کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کی شرائط و قواعد و ضوابط کا تعین وزیراعظم کریں گے۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کو مزید تین سال کے لیے دوبارہ تعینات بھی کرسکیں گے، کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کی دوبارہ تقرری یا توسیع کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر، سروس کی میعاد اور انہیں ہٹانا کمانڈر نیشنل اسٹریجک کمانڈ پر لاگو نہیں ہوگا، کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ بطور جنرل پاکستان آرمی میں اپنی خدمات سر انجام دیں گے۔

آرمی ایکٹ آرٹیکل 176 (سی) میں ترمیم پر وضاحت

پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 176 (سی) میں ترمیم پر وضاحت جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ آرٹیکل 1978ء میں ڈالا گیا تھا اس میں کوئی نئی بات نہیں، موجودہ ترمیم صرف آرمی چیف کی کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کی تقرری کو شامل کرنے کے لیے ہے، وائس چیف آف آرمی اسٹاف یا ڈپٹی آرمی چیف کی کوئی تقرری نہیں کی جا رہی۔

پاکستان نیوی ایکٹ میں ترامیم

قومی اسمبلی سے پاکستان نیوی (ترمیمی) بل 2025ء منظور کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان نیوی ایکٹ 1961ء میں ترامیم کی گئی ہیں۔ ترمیمی بل کا مقصد آئینی ترمیم 2025ء کے مطابق قوانین کو ہم آہنگ کرنا ہے۔ بل میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے متعلق دفعات حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ترمیم کے بعد نیوی کمانڈ ڈھانچے کو نئے ڈیفنس اسٹرکچر کے مطابق ڈھالا جائے گا، چیف آف نیول اسٹاف کے اختیارات اور عہدے سے متعلق اصطلاحات میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ نیوی ایکٹ کے مختلف حصوں میں لفظ ’’یا‘‘ کی جگہ ’’اور/یا‘‘ شامل کیا جائے گا۔

ترمیم کے تحت دفعات 11D، 11E اور 11F کو حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سیکشن 208 میں سے بھی ’’چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی‘‘ کے الفاظ نکالنے کی سفارش کی گئی ہے۔

بل کے تحت نیوی قانون کو ملٹی ڈومین انٹیگریشن پالیسی کے مطابق اپڈیٹ کیا جائے گا۔ ترمیمی بل کا مقصد دفاعی فورسز کے مابین کمانڈ ہم آہنگی اور تنظیمی ربط بڑھانا ہے

پاکستان ایئر فورس ایکٹ میں ترامیم

پاکستان ایئر فورس ایکٹ ترمیمی بل 2025ء قومی اسمبلی سے منظور ہوا جس میں اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں سے سیکشن 10ڈی ،10ای،10ایف حذف کرنے کا کہا گیا ہے، سیکشن 202 میں ترمیم چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے الفاظ حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

چیف آف ڈیفنس کا عہدہ اپوائنٹمنٹ کی تاریخ سے پانچ سال کا ہوگا، وزیر قانون

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27ویں ترمیم کو موجودہ قانون سے ہم آہنگ کرنے کے لیے یہ ترامیم لائی گئی ہیں۔ انہوں ںے وضاحت دی کہ چیف آف ڈیفنس کا عہدہ اپوائنٹمنٹ کی تاریخ سے پانچ سال کا ہوگا، ایئرفورس اور نیوی میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں،
آئین کے مطابق نئی عدالت میں تعیناتیوں کی ترامیم منظور کرلی گئی ہیں اور اس میں سب سے پہلی اپوائنٹمنٹ چیف جسٹس کی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب سے چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پرویسجر ترمیمی بل منظور

ایوان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پرویسجر ترمیمی بل پیش کیا گیا اور اسے بھی منظور کرلیا گیا جس کے تحت سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء میں مزید ترمیم کی گئی ہیں۔

بل کے متن کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سے آرٹیکل 191اے کو حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سے آئینی بنچز کے الفاظ کو حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے سیکشن 5حذف کرنے تجویز دی گئی ہے۔

بل میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کی شق 2میں ترمیم کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے سامنے کوئی بھی معاملہ، پٹیشن، اپیل یا نظرثانی کی درخواست ہو، چیف جسٹس پر مشتمل کمیٹی کی طرف سے تشکیل کردہ بنچ کے ذریعے سنیارٹی کے لحاظ سے اگلا سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کی طرف سے نامزد کردہ جج کے ذریعے سنے گا۔

کوئی رکن کسی وجہ سے کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے قاصر ہو تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے کسی دوسرے جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کر سکتا ہے جب کہ کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے ہوں گے۔

گھریلو تشدد کے تحفظ اور روک تھام کا بل منظور

رکن شرمیلا فاروقی نے گھریلو تشدد کے تحفظ اور روک تھام کا بل پیش کیا جو مںظور کرلیا گیا۔ جے یو آئی اراکین کی جانب سے گھریلو تشدد سے متعلق بل کی مخالفت کی گئی۔

رکن نعیمہ کشور نے کہا کہ ہمیں وقت دیا جائے تاکہ اس بل پر غور کرسکیں، ہمیں دو دن کا وقت دیں تاکہ ترمیم لا سکیں، ہم گھریلو تشدد سے متعلق بل کو مسترد کرتے ہیں۔

رکن عالیہ کامران نے کہا کہ وہ کون سی دشواری ہے جو آپ نے رولز معطل کرکے یہ بل پیش کیے۔

اسپیکر نے کہا کہ میں نے اجلاس ملتوی کرنا ہے اس لیے رولز معطل کیے۔

عالیہ کامران نے کہا کہ وزارت داخلہ کی کمیٹی میں ہماری نمائندگی نہیں ہے، اس بل کی شقیں اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

رکن شاہدہ اختر علی نے کہا کہ یہ بل آرٹیکل 227 کے خلاف ہے، یہ بہت حساس معاملہ ہے ایسا نہ کریں، یہ بل ہمارے اسلامی تشخص کے خلاف ہے۔

وزیراعظم بھی اسمبلی میں موجود تھے۔ انہوں ںے کہا کہ کل میں اپنی تقریر ایک کرنا بھول گیا تھا، ایم کیو ایم کی ترمیم کو ہم نے سپورٹ کیا لیکن ترمیم کا حصہ نہ بن سکی ، ایم کیو ایم کے ساتھ وعدہ کیا حلیف جماعتوں سے مشورہ کرکے معاملہ حل کریں گے۔

بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں