ڈراؤنے خواب نہ صرف نیند کی کیفیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عمر بڑھنے کے عمل کو بھی تیز کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں قبل از وقت موت کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
امپیریل کالج لندن کے نیورو سائنس دان ڈاکٹر عابدیمی اوٹائیکو کی قیادت میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوتے ہوئے دماغ حقیقت اور خواب میں تمیز نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے ڈراؤنے خواب ٹینشن میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ تناؤ جسم میں ایسے کیمیائی ردعمل پیدا کرتا ہے جو سیلولر سطح پر عمر بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔
تحقیق میں 26 سے 86 سال کے 183،000 سے زائد بالغوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا جس میں محققین نے شرکا کے ٹیلومیرز (کروموسوم کے چھوٹے سرے) کی لمبائی کی پیمائش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ جو افراد باقاعدگی سے ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں ان میں ٹیلومیرز چھوٹے ہوتے ہیں جو تیز حیاتیاتی بڑھاپے اور مختلف بیماریوں کے خطرے سے منسلک ہیں۔
ڈراؤنے خواب تمباکو نوشی سے زیادہ خطرناک
تحقیق کے مطابق جو لوگ ہفتہ وار ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں ان میں 70 سال کی عمر سے پہلے مرنے کا امکان 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ نتائج ناقص غذائیت، ورزش کی کمی یا تمباکو نوشی کے اثرات سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ محققین نے بتایا کہ ڈراؤنے خواب کورٹیسول، یعنی تناؤ کے ہارمون، کی مقدار میں اضافہ کرتے ہیں، جو سیلولر عمر بڑھنے کے عمل سے جڑا ہوا ہے۔
تدارک کیا ہے؟
محققین نے اس تحقیق کے نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا کہ ڈراؤنے خوابوں کو روکنے کے لیے چند سادہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن میں نیند کے اچھے معمولات قائم کرنا، تناؤ کو کم کرنا اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے پریشانی یا ڈپریشن کا علاج شامل ہے۔
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ڈراؤنی فلمیں دیکھنے سے گریز کرنے سے بھی ڈراؤنے خوابوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
یہ تحقیق خوابوں کے اثرات کو سمجھنے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے نہ صرف نیند کی اہمیت بلکہ ذہنی صحت کے معاملے پر بھی مزید غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔